۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
گوشۂ ادب

حوزہ|میر تقی میر: مخمس در مدح حضرت علی علیہ السلام

حوزہ نیوز ایجنسی|

میر تقی میر: مخمس در مدح حضرت علی علیہ السلام

ہادی علی رفیق علی رہنما علی

یاور علی ممدّ علی آشنا علی

مرشد علی کفیل علی پیشوا علی

مقصد علی مراد علی مدعا علی

جو کچھ کہو سو اپنے تو ہاں مرتضےٰ علی

نور یقیں علی سے ہمیں اقتباس ہے

ایمان کی علی کی ولا پر اساس ہے

یوم التناد میں بھی علی ہی کی آس ہے

بے گاہ و گاہ ناد علی اپنے پاس ہے

قبلہ علی امام علی مقتدا علی

دیوانگان شوق کا مت پوچھو معتقد

فہم اس کا تب ہو روح قدس جب کرے مدد

ظاہر اس ایک شان سے شانیں ہیں لاتعد

گہ احمد اس کو کہتے ہیں گاہے اسے احد

شایان حمد و قابل صل علیٰ علی

نے شہ سے کچھ غرض ہے ہمیں نے وزیر سے

نے اعتقاد شیخ سے نے کچھ فقیر سے

رکھتے نہیں ہیں کام صغیر و کبیر سے

ہے لاگ اپنے جی کو اسی اک امیر سے

مولا علی وکیل علی بادشا علی

پہنچے ہے تیرے ہاتھ تلک کب کسو کا دست

کیا سمجھے شیخ حال کو فطرت ہے اس کی پست

ہوں جوں نصیری ساقی کوثر کا محو و مست

مسکن علی نگر ہے مرا میں علی پرست

پیغمبر اس جگہ کا علی ہے خدا علی

شیوہ اگرچہ اپنا نہ یہ وعظ و پند ہے

پر اس کو سن رکھ اے کہ تو کچھ دردمند ہے

کیا ہے جو عرصہ تنگ ہوا کام بند ہے

دل جمع کر کہ ہمت مولیٰ بلند ہے

یعنی کرم شعار ہے مشکل کشا علی

اپنی بساط تو ہے علی ہے وہی علیم

کس طور جیتے رہتے نہ ہوتا جو وہ کریم

دیکھیں ہیں اس کی اور جو ہم ہوتے ہیں سقیم

یاں کا وہی ہے شافی و کافی وہی حکیم

عارض ہو کوئی درد ہمیں ہے دوا علی

ہے دوستی علی کی تمناے کائنات

بے لطف اس بغیر ہے کیا موت کیا حیات

یعنی کہ ذات پاک ہے اس کی خدا کی ذات

کیا ان موالیوں کے تئیں ہے غم نجات

مرتے ہوئے جنھوں کے دلوں میں رہا علی

یہ کس طرح سے راز کہوں میں زبان سے

حالات اس روش کے پرے ہیں بیان سے

یک شب نبیؐ جو نکلے زمان و مکان سے

ذات مبارک آئی نظر اور شان سے

تھا بزم لامکاں میں بھی رونق فزا علی

خواہش مدد کی غیر سے یہ ہے خیال خام

کرتا ہے کب قبول اسے عاقل تمام

کافی ہے دوجہان میں مولا کا میرے نام

لاریب اس پہ آتش دوزخ ہوئی حرام

اک بار بھی زبان سے جن نے کہا علی

سر تا قدم ثبات دل و جملگی ادب

صورت پکڑ کے سامنے آیا تھا لطف رب

ظاہر ہوئے ظہور جہاں میں عجب عجب

محراب میں نہ گرم بکا تھا کدام شب

ہنستا رہا نہ کون سے روز غزا علی

عنتر کو نار خشم نے اس کی جلا دیا

اژدر کو چیر ایک ہی دم میں کھپا دیا

خورشید کو نکال دوبارہ دکھا دیا

ہنگامہ کفر و شرک کا آکر مٹا دیا

تھا جانشین ختم رسلؐ کا بجا علی

گو چشم دل کھلے نہ کسی روسیاہ کی

اس تک مجال کب ہے کسو کی نگاہ کی

اللہ ری بلندی تری قدر و جاہ کی

مرمر کے جبرئیل نے درباں سے راہ کی

شاہا ملک سپاہ جہان صفا علی

دشمن کو آگہی ہے کماینبغی کہاں

قدرت سے اس کی قدرت حق ہوتی ہے عیاں

زورآوری مزاج میں آوے تو الاماں

کچھ بھی نہیں ہے پھر یہ جو سب کچھ ہے درمیاں

ارض و سما کے دیوے قلابے ملا علی

دی تیغ ایسی کس کو کہ جیسی ہو ذوالفقار

مرکب کہاں ہیں اس کے سے ویسے کہاں سوار

گذرے ہیں گرچہ مردم خوب آگے بھی ہزار

پر یہ شرف خدا کی طرف سے ہے یہ وقار

خلقت تو دیکھ کعبے میں پیدا ہوا علی

تھی حق کے ہاں سے احمد مرسلؐ کو سروری

کہتی تھی ساری خلق خدا کی اسے ولی

نسبت بغیر ہوتے ہیں یہ اتحاد بھی

لطف و سخا و ہمت و حلم و حیا نبیؐ

جود و سخا و جرأت و مہر و وفا علی

نزدیک سب کے اس کو ہے درجہ قبول کا

ایک عندیہ ہے سید و شیخ و مغول کا

کب معتبر ہے حرف کسو بوالفضول کا

باطن علی ہے ظاہر خوب رسولؐ کا

خاک اس کے فرق پر جو کہے تھا جدا علی

ہر فرد کی زباں پہ علی کی ہے گفتگو

ہر شخص کے تئیں ہے علی ہی کی جستجو

عالم کو ہے علی کی تولا سے آرزو

اپنا ہی کچھ علی کی طرف کو نہیں ہے رو

مقصود خلق و مطلب ارض و سما علی

اک شوق ہے علی کا مرے قلب میں نہاں

شاید یہی نجات کا باعث بھی ہو وہاں

اب زیر لب ہے زیست میں جو میرؔ ہر زماں

اس وقت میں کہ جان ہو یک دم کی میہماں

امید ہے کہ یوں ہی لبوں پر ہو یا علی

مأخذ:kulliyat-e-miir-Vol 2

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .