۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
رمضان کریم

حوزہ / اخلاقی مسائل میں سے ایک مسئلہ  جو انسانی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے وہ ادب کا مسئلہ ہے اور  جس پر اسلامی آیات اور روایات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | آداب بندگی کو مختلف جہتوں سے زیر بحث لایا جا سکتا ہے، اور ہم یہاں اس کی اہمیت اور مراتب ، اقسام، مصادیق ، علامات اور آثار کے سلسلہ میں جاری بحث کو بیان کریں گے:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ صَلّیَ اللهُ عَلَى خَیرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِین۔‏

2۔ ادب امتثالی

«فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَينَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أنْفُسِهِم حَرَجا مِمّا قَضَيتَ ويُسَلِّمُوا تَسْلِيما»

(نساء/65)

پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ہرگز صاحبِ ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حکُم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائیں۔

فرمانبرداری اور امتثال میں ادب کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول جو بھی حکم دیں اس کی جلد تعمیل کرنی چاہئے اور فرض اور حکم کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(الخصال، ج‌۱، ص4) «يَا ابْنَ آدَمَ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ وَ لَا تُعَلِّمْنِي مَا يُصْلِحُك‌»

اللہ فرماتا ہے: "اے ابن آدم! جو میں نے تمہیں حکم دیا ہے اس میں میری اطاعت کرو اور جو تمہارے حق میں بہتر ہے وہ مجھے مت سکھاؤ "۔

اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ادب کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم اذان سنیں تو نماز کے لیے تیاری کریں۔

امام خمینی (رح) کے بارے میں یہ بات نقل ہوئی ہے جب آپ فرانس میں تھے تو ایک دن صحافیوں کا ایک بڑا ہجوم آپ سے انٹریو لینے کے لیے آپ پاس آئے اور آپ ان سے گفتگو فرما رہے تھے۔ جب نماز کا وقت آیا آپ وہاں سے چلے گئے اور نماز کے لیے تیار ہوگئے۔

تعمیل حکم میں ادب کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دار خدا کے حکم کی تعمیل میں خوشحال اور راضی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

(امالي طوسی،ج۱، ص496) «لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَ فَرْحَةٌ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ»

روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت( کیونکہ اس نے اپنے پرودگار کی اطاعت کی ہے) اور دوسری خوشی قیامت کے دن (کیونکہ قیامت کے دن انسان کو پرودگار کی اطاعت صلہ میں ثواب ملے گا)

3۔ ادب ذکری

خداوند متعال کے سامنے آداب میں سے ایک، ذکر میں ادب ہے۔

ذکری ادب سے مراد یہ ہے خدا کے نام احترام کے ساتھ لایا جائے اور ہمیشہ خدا کو اچھی صفات اور خوبیوں کے ساتھ بیان کریں۔

(شعراء69و 80)«وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ • وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ»

اور انہیں ابراہیم کی خبر پڑھ کر سناؤ اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی شفا بھی دیتا ہے۔

جیسا کہ ہم حضرت ابراہیم (ع) کے قصہ میں دیکھتے ہیں آپ نے بیماری کو اپنی طرف اور شفاء کو خدا کی طرف نسبت دی ۔

ذکری ادب کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک نہ سمجھیں بلکہ یہ سمجھیں کہ بندہ خود اور جو کچھ اس کے قبضے میں ہے وہ اس کے مالک کا ہے۔

«العبدُ و ما فی یده کانَ لِمولاه»

امام صادق علیہ السلام نے بصری کے اس سوال کے جواب میں فرمایا جس نے بندگی کی حقیقت کے بارے میں پوچھا تھا:

« "ثَلاثةُ أشياءَ : أن لا يَرَى العَبدُ لِنَفسِهِ فيما خَوَّلَهُ اللّه ُ إلَيهِ مُلكا؛ لِأنَّ العَبيدَ لا يَكونُ لَهُم مُلكٌ، يَرَونَ المالَ مالَ اللّه ِ يَضَعونَهُ حَيثُ أمَرَهُمُ اللّه ُ تَعالى بهِ، و لا يُدَبِّرَ العَبدُ لِنفسِهِ تَدبيرا، و جُملَةُ اشتِغالِهِ فيما أمَرَهُ اللّه ُ تَعالى بهِ وَ نَهاهُ عَنهُ ••• فهذا أوّلُ دَرَجَةِ المُتَّقينَ"( مشكاة الأنوار ،ص563)

بندگی کی حقیقت تین چیزیں ہیں: بندہ جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے اس میں اپنے لیے کسی چیز کا مالک نہ سمجھے کیونکہ غلاموں اور بندوں کی کوئی ملکیت نہیں ہوتی ہیں۔ مال کو خدا کی ملکیت سمجھتے ہیں اور اپنے لیے کسی چیز کی ملکیت کا قائل نہیں ہیں۔ اور جہاں خدا نے حکم دیا ہے وہاں خرچ کرتے ہیں۔ (دوسرا) یہ کہ بندے کو اپنے لیے کوئی تدبیر یا حل نہیں سوچنا چاہیے، (اور تیسری بات] اس کا سارا مشغلہ ان کاموں میں ہونا چاہیے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے یا اس سے روکا ہے۔ یہ متقی لوگوں کا پہلا درجہ ہے۔

سبق آموز قصہ:

ایک دن فتح علی شاہ قاجار اپنی اہلیہ کے ساتھ مشاعرہ کر رہے تھے، مشاعرے کے دوران شاہ نے یہ شعر سنایا: ح «آفرین بر حسن یوسف، آفرین» یوسف کے حسن اور جمال پر آفرین ہو( بادشاہ نے یوسف کے حسن اور جمال کی تعریف کی ان کی اہلیہ نے ان سے کہا کہ یہ شعر اس طرح پڑھنا چاہے: آفرین بر حسن یوسف آفرین ، یعنی یوسف کی تعریف کے بجائے اس خدا کی تعریف کرو جس نے یوسف کو پیدا کیا ہے۔ (جاری ہے)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .