حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، المیزان ہیومن رائٹس سینٹر نے منگل کے روز اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک 3 ہزار فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے ، ہیومن رائٹس سینٹر نے ان قیدیوں کو گرفتاری کے لمحے سے لے کر تفتیشی مراکز میں پوچھ گچھ تک کے ہولناک تشدد پر ایک رپورٹ شائع کی۔
نمر النمر نامی ایک فلسطینی بچہ کہ جو اسرائیلی حراستی مراکز میں ہفتوں کی اسیری کے بعد کل رہا کیا گیا ، اس بچے نے بتایا :"جب کہ میں زخمی تھا اور میرے پیٹ اور کمر میں گولیاں لگی تھیں، پھر بھی انہوں نے مجھے بہت مارا اور مجھے گالی دی۔
المیزان ہیومن رائٹس سینٹر نے آج غزہ میں فلسطینی جنگی قیدیوں کی صورت حال پر ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ غاصب اسرائیلی فوج نے غزہ کے آغاز سے اب تک 3 ہزار فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے جن میں خواتین، بچوں، ڈاکٹروں اور بزرگوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
اس مرکز نے اعلان کیا کہ یہ قیدی گرفتاری کے لمحے سے لے کر مختلف مراکز اور جیلوں کے اندر پوچھ گچھ تک انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں، بتایا جا رہا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت نے غزہ کی پٹی سے 300 قیدیوں کو کہ جن میں 10 بچے بھی شامل ہیں، ان پر مزید مقدمہ چلانے کے لیے عسقلان اور عوفر جیلوں میں منتقل کر دیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق تمام قیدیوں کو گرفتاری کے لمحے سے لے کر تحقیقاتی مراکز تک تشدد اور غیر انسانی برتاؤ کیا جا رہا ہے۔
ابھی کل ہی، فلسطینی اتھارٹی فار کراسنگ اینڈ بارڈرز نے اطلاع دی کہ اسرائیلی حکام نے غزہ میں پہلے حراست میں لیے گئے 150 افراد کو رہا کر دیا ہے، ان افراد سے فوجی حراست میں رکھنے کے بعد 50 دن تک پوچھ گچھ کی گئی۔
گزشتہ روز رہا ہونے کے بعد فلسطینی قیدیوں نے زیر حراست اپنے حالات کے بارے میں خوفناک داستانیں بتائیں، اسرائیل کی زیر حرست قیدیوں میں سے 150 قیدیوں کی جسمانی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔