تحریر: حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ
حوزہ نیوز ایجنسی| اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: پس ان کو چاہیئے کہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ، یہ ان کاموں کی سزا ہے جو وہ کرتے تھے۔ (التوبہ، ٨٢)
شاعر نے کہا:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
کسی انسان کی موت پر ہنسنا یا جشن منانا اسلام اور انسانیت کے منافی ہے کیونکہ یہ ایک مذموم خصلت ہے سلیم الطبع لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور بامروت لوگ اس سے دور رہتے ہیں ۔ موت وہ قضا و قدر ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کیلئے لکھی ہوئی ہے، ہر انسان کو مرنا ہے، اس لئے کسی کو کسی کی موت پر خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ موت ایسی چیز ہے جس سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا خواہ اس کی عمر کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ [آل عمران: 185]
’’اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اسلام انسانی اقدار کی سربلندی کا مذہب ہے اور رسول اللہ ﷺ انسانی اقدار کا بے حد احترام کرتے اور اس کی تربیت بھی کر کے گئے ۔ یہودی کے جنازے کا احترام ، ایک منافق کی قبر پر جانا اور نجران کے مسیحیوں کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی سہولت کی فراہمی انسانی اقدار کا عظیم نمونہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت کا احترام تو رسول اللہ ﷺ نے میدان جنگ میں بھی کیا اور سکھایا کہ کبھی بھی خواتین ، بچوں ، بزرگوں یہاں تک کہ اپنے عقیدے کے مخالف غیر مسلح لوگوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے‘‘۔
ہے ہماری درسگاہ کربلا کربلا۔حق کا سیدھا راستہ کربلا کربلا
کربلا وہ صاف و شفاف آئینہ ہے جس میں ہردور کے ظالمین اور مظلومیں کی صورتیں واضح اور نمایاں نظر آتی ہیں۔
کربلا میں 5 محرم 61 ھ اتوار کا دن ہے نبی ؐ کا پیارا نواسہ فاطمہ کا چاند امام حسین علیہ السلام کربلا کی بے آب وگیاہ سرزمین کو معلی اور اسلام کا حصار بنانے کی تیاریوں میں مشغول ہیں ۔
دوسری جانب عمر بن سعد کے آنے کے بعد لگتار فوجوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دن تک لشکر کی تعداد چھے 6 ھزار سے زائد ہو گئی تھی۔ ابن زیاد کی طرف سے مزید فوج کربلا بھیجی جا رہی تھی۔
شبث ابن ربعی کو چار ہزار، عروہ ابن قیس کو چار ہزار، سنان ابن انس کو دس ہزار، محمد ابن اشعث کو ایک ہزار, عبداللہ ابن حصین کو ایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔
شبث ابن ربعی 5 محرم کو کربلا میں وارد ہوا۔
امام حسین علیہ السلام کو کوفہ بلانے والوں میں سے ایک شخص شبث بن ربعی کوفی تھا، امام حسین علیہ السلام جب کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ابن زیاد نے اس کو اپنے پاس بلایا، پہلے اس نے بیماری کا بہانہ لیا لیکن رات کو ابن زیاد کے پاس گیا، ابن زیاد نے اس کو انعام و اکرام سے نوازا اور چار ہزار افراد کے ساتھ کربلا کی طرف روانہ کیا۔
شبث بن ربعی کوفی منافق اور خبیث ترین انسان تھا، کیونکہ یہ پہلے خود کو علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کرتا تھا، اس کے بعد خوارج میں شامل ہوگیا تھا، پھر اس نے توبہ کی یہ لعین ان اشخاص میں شامل تھا جنہوں نے یزید کے خلاف امام حسین ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی مگر اس کے کچھ دنوں بعد امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے کیلئے کربلا کی طرف روانہ ہوا اور کربلا کے واقعہ کے بعد مختار ثقفی کو جھانسہ دینے کی کوشش کی اور امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کیلئے قیام کرنے والوں میں شامل ہو نے کی کوشش کی پھر مختار کو قتل کرانے میں ابن زبیر کی فوج میں شریک رہا اور 80 ہجری میں کوفہ میں خوارج کے ہاتھوں ہی مارا گیا۔
جب صحابی رسول ؐ حجر بن عدی زیاد بن ابیہ کے زندان میں تھے تو شبث عدالت میں حجر کے خلاف گواہی دینے والوں میں سے تھا۔
شبث ابن ربعی کی اہلبیت دشمنی کی حد ملاحظہ کیجئے کہ اس کی ایک مسجد تھی جس کو امام حسین علیہ السلام کے شہید ہونے کے بعد کوفہ میں خوشی میں دوبارہ بنوایا گیا۔
امام حسین علیہ السلام کے شہید ہونے کی خوشی میں جو مسجدیں دوبارہ بنوائی گئیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:مسجد اشعث بن قیس،مسجد جریر بن عبداللہ بجلی،مسجد سماک بن مخرمہاور مسجد شبث بن ربعی۔
امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز شبث سے خطاب کر کے فرمایا تھا اے شبث بن ربعی، اے حجار بن ابجر، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے خط لکھ کر نہیں بلایا تھا؟ اور لکھا تھا کہ ہمارے درختوں کے میوے تیار ہیں، ہمارے باغ سبز ہیں اور ہم نے آپ کی مدد کرنے کیلئے لشکر آمادہ کر رکھا ہے۔ اس وقت قیس بن اشعث نے کہا ہمیں نہیں معلوم آپ کیا کہہ رہے ہیں لیکن یزید اور ابن زیاد کے حکم کو قبول کرلیں جس پر حضرت نے فرمایا لا واللہ کبھی بھی تمہاری پستی کی طرف نہیں جھکوں گا اور تمہیں معاف بھی نہیں کروں گا۔(بلاذری ، طبری، معجم رجال الحدیث خوئی، تاریخ کوفہ، منتہی الآمال و مقتل المقرم )
محرم شیعہ نقطۂ نظر سے
محرم 61 ہجری میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ مہینہ شیعوں کے لیے سوگ کا مہینہ بن گیا ہے۔ امام معصوم علیہ السلام اور ان کے شیعوں نے اس مہینے میں ماتمی تقریب منعقد کرنے کی کوشش کی ہے۔
امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ: جب محرم کا مہینہ قریب آتا تھا تو کوئی میرے والد کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھتا تھا اور عاشورہ کے دن تک وہ غم میں ڈوبے رہتے تھے۔ وہ دن ان کے دکھ، غم اور گریہ و زاری کا دن تھا اور وہ کہتے تھے: آج وہ دن ہے جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا ‘‘۔
لیکن عاشورہ کے دن عید منانا یزید اور یزیدیوں کی روایت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ عید کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان کے لئےجشن اور خوشی کا دن تھا۔ جیسا کہ زیارت عاشورا میں بیان ہوا ہے۔ وَ هذا یَوْمٌ فَرِحَتْ بِهِ آلُ زِیادٍ وَآلُ مَرْوانَ بِقَتْلِهِمُ الْحُسَیْنَ صَلَواتُ اللَّهِ عَلَیْهِ ۔’’اور یہ وہ دن ہے جس دن زیاد اور مروان کے گھر والوں نے حسین کے قتل کی وجہ سے خوشی منائی تھی‘‘۔
اسی کربلا کے آئینہ میں غزہ و فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے موضوع پر اس وقت ایکبار پھر پوری دنیا خوشی اور غمی منانے والوں کے بیچ بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ایک طرف غزہ و فلسطین کے مظلومین کے حمایتی ہیں تو دوسری طرف یزید وقت اسرائیل کے حمایتی۔حد تو اس وقت ہو گئی جب مدافع غزہ و فلسطین ایران کے صدر جمہوریہ آیۃ اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اپنے چند رفقاء واعلیٰ حکام کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثہ میں شہید ہوگئے یا کئے گئے تو پوری دنیا میں انصاف پسند انسانوں میں سوگ منایا گیا لیکن امریکہ و اسرائیل کے زرخرید بعض ناعاقبت اندیش افراد خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ہندوستان و پاکستان و عراق و شام سمیت متعدد مسلم و غیر مسلم ملکوں میں سرکاری طور پر سوگ منایا گیا تو کیا یہ ایران کی عزت و مقبولیت کی دلیل نہیں ہے۔کچھ ضمیر فروش عہد حاضر کے شبث بن ربعی کوفی جیسے خبیث و بد طینت و نطفۂ نا تحقیق منافقین بھی سوشل میڈیا پر زور وشور سے اچھلتے کودتے اور خوشی مناتے ہو ئے دیکھے گئے۔خدا ان کا حشر آل زیاد و آل مروان کے ساتھ کرے۔سچائی تو یہ ہے کہ جو جتنا بڑا نیک، شریف اور عظیم کردار کا مالک ہوتا ہے اس کا دشمن اور مخالف بھی اتنا بڑا خبیث و ذلیل و بد طینت اور بدکردار ہوتا ہے۔
جیسے حسین ؑ اور یزید۔موسیٰ اور فرعون،ابراہیم اور نمرود وغیرہ وغیرہ۔ سابق صدر ایران شہید آیت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کے مخالف و معاند بھی وقت کے نمرود مردود ہیں۔جس طرح شریعتِ محمدی میں سنت ابراہیمی آج تک جاری و ساری ہے تحریک انصاف و حریت کی راہ میں، نہضت ابراہیم رئیسی بھی ان شاء اللہ ہمیشہ عروج پاتی رہے گی۔