حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رپبر معظم نے شہید رئیسی کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران کہا: خداوند عالم ان شاء اللہ جناب رئيسی کے درجات بلند کرے۔ میں جتنا بھی سوچتا ہوں، خود میرے لیے بھی، ملک کے لیے بھی اور خاص طور پر ان کی فیملی کے لیے بھی اس کی تلافی نا ممکن نظر آتی۔ یعنی بہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی نہیں ہو سکتی، واقعی بہت سخت ہے، بہت بڑا صدمہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ان کے درجات بلند کرے اور آپ لوگوں کو بھی صبر دے۔ مصیبت جتنی سخت اور بڑی ہوتی ہے، خدا کا اجر بھی اسی نسبت زیادہ بڑا اور زیادہ شیریں ہے، ان شاء اللہ۔
انھوں نے اپنی حیات میں بھی خلوص کے ساتھ خدمت کی اور بڑی بڑی خدمات انجام دیں، اپنی موت کے بعد بھی انھوں نے ملک کی ایسی بڑی خدمت کی۔ عوام کا یہ اجتماع کہ لوگ سانحے کی خبر سنتے ہی مختلف شہروں میں، تہران میں، مشہد میں اور دوسری جگہوں پر مساجد میں آئيں، چوراہوں پر اکٹھا ہوں، یہ سب بہت معنی خیز ہے۔ یہ پیار جو لوگوں نے ان کے سلسلے میں دکھایا، ان سے جو یہ وفاداری دکھائي، یہ بہت معنی خیز ہے۔ مرحوم، انقلاب کے نعروں کا مظہر تھے۔ یعنی انقلاب کی اصلی باتیں ان کے منہ سے نکلتی تھیں اور انھوں نے ان نعروں کو اپنے نعرے قرار دیا تھا اور یہ باتیں لوگوں نے ان سے سنی تھیں۔ یہی لوگ ان کے لیے اپنے یہ جذبات دکھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہی تو ہے کہ لوگ اس انقلاب سے اور ان نعروں سے دلبستہ ہیں۔
بعض ملکوں کے سربراہ آئے اور ہم سے ملاقات کی، میں نے دیکھا کہ ان میں سے بعض اس نکتے کی طرف متوجہ ہیں۔ ان کا جو جلوس جنازہ نکلا، اس نے درحقیقت پوری دنیا کو اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا پیغام دیا۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سوچ، یہ منطق اور یہ مکتب عوام کے اندر اتنی گہرائي تک اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہے۔ عوام ہی سب کچھ ہیں یعنی جب لوگ کسی نظام کے ساتھ ہوں تو اس نظام کی اصل طاقت عوام کی محبت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کیا اس سے بڑا کوئي سماجی سرمایہ ہو سکتا ہے؟ یہ اجتماع، یہ گریہ، یہ عمومی غم و اندوہ، صرف تہران میں ہی نہیں، پورے ملک میں، کیا اس سے بڑا کوئي سماجی سرمایہ ہو سکتا ہے؟ یہ کام کس نے کیا؟ کون اس چیز کو دنیا کی نظروں کے سامنے لایا؟ جناب رئيسی صاحب نے یہ کام کیا۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ خداوند عالم اس مرد کو چاہتا تھا اور اس نے ان کی وفات کو اس طرح بابرکت قرار دیا، مبارک قرار دیا۔ وہ لوگ جو اس سانحے میں ان کے ساتھ تھے، ان میں سے بعض واقعی ایسے تھے جن کی عوامی پوزیشن تھی جیسے جناب آل ہاشم، انھیں بھی عروج حاصل ہوا۔ جناب عبداللہیان صاحب، ان کے محافظ، گورنر، وہ عملے کے افراد، ان لوگوں کو بھی اس مرد کی برکت سے عروج حاصل ہوا۔ یہ لوگ بھی اوج پر پہنچے، یہ لوگ بھی عوام کی نظروں میں عزیز ہو گئے۔ یہ خداوند عالم کا لطف و کرم ہے۔ صدمہ بڑا ہے، سنگين ہے، ان کے اہل خانہ کے لیے، ان کے رشتہ داروں کے لیے، ان کے سبھی دوستوں کے لیے، ہم سب کے لیے غمناک ہے۔ یہ سب اپنی جگہ صحیح، لیکن سانحے کے اس پہلو کو، سانحے کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے کہ خداوند عالم نے اس تلخ سانحے میں کیسی برکت رکھی۔ خداوند عالم نے اس سانحے میں ملک، نظام اور اسلام کے لیے کیسا موقع رکھا۔