۱۲ تیر ۱۴۰۳ |۲۵ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jul 2, 2024
الحاج مولانا املوی واعظ

حوزہ/بچے اپنے ماں باپ، اپنی قوم و قبیلہ، اپنے ملک و ملت اور اپنے دین و مذہب کے مستقبل ہوتے ہیں اور مستقبل کے بغیر زمانہ کی تعریف مکمل نہیں ہوتی۔ روشن مستقبل کے لئے بچوں کی حفاظت ضروری ہے۔ بچے ہی مستقبل کے معمار کہے جاتے ہیں۔

تحریر:الحاج مولانا ابن حسن املوی واعظ کربلائی

حوزہ نیوز ایجنسی| بچے اپنے ماں باپ، اپنی قوم و قبیلہ، اپنے ملک و ملت اور اپنے دین و مذہب کے مستقبل ہوتے ہیں اور مستقبل کے بغیر زمانہ کی تعریف مکمل نہیں ہوتی۔ روشن مستقبل کے لئے بچوں کی حفاظت ضروری ہے۔ بچے ہی مستقبل کے معمار کہے جاتے ہیں۔بچے گلش انسانیت کے غنچے ہوتے ہیں بہترین اور مکمل پھولوں کی افزایش کے کے لئے غنچوں کی نشو نما لازم ہے۔

بچے تعمیر معاشرہ کے کا اہم ترین جزو ہوتے ہیں اور بغیر جزو کے کل کا تصور خیال خام ہے۔

’’بچے بھگوان کا روپ ہوتے ہیں ‘‘ایسا اہل ہنود کا ماننا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ بچوں پر ظلم و تشدد کرنے والے کبھی بھی عذاب الٰہی سے بچنے نہیں پاتے۔بچوں پر ظلم ڈھانے والوں کا مستقبل تاریک ہو تا ہے۔بچوں پر ظلم کرنے والوں کی نسل کبھی آگے نہیں بڑھتی۔بچوں پر ظلم کرنے والوں کی انسانی سماج و معاشرہ میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

آج فلسطین میں غزہ کے بچوں پر جو اسرائیلیوں کی طرف سے ظلم و ستم ہو رہے ہیں ان کو دیکھ کر دنیا بھر میں ہر وہ انسان جس کے سینہ میں انسانیت کا دھڑ کتا ہوا دل ہے خون کے آنسو رورہا ہے۔اور نونہالان کربلا کے واقعات شہادت کو غمزدہ قلوب کے لئے تسلیت کا سامان قرار دے رہا ہے۔

گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را

تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را

’’کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں۔‘‘

کربلا عظیم درسگاہ بشریت ہے جس میں ہر شعبہ حیات کا کامل درس مضمر ہے۔جس میں ہر انسانی نوع،صنف،جنس،طبقہ کے لئے آفاقی پیغام موجود ہے۔

یہ بھی نظام قدرت ہے کہ کہ جو کسی کی نسل کشی کرتا ہے وہ خود مقطوع النسل ہو جاتا ہے۔تلاش کر کے بتائیے کربلا میں شش ماہہ مجاہد حضرت علی اصغر کے قاتل حرملہ ملعون کی اولاد دنیا میں کہیں کوئی ہے؟

دنیاوی قانون میں بھی بچوں کے ساتھ نرمی اور رحمدلی کا بتاؤ کرنے حکم ہے۔

تاریخ مذاہب اورتاریخ سلاطین کا مطالعہ کیاجائے تو قبل از اسلام کسی مذہب میں یاکسی بادشاہ کے بارے میں یہ ذکر نہ ملے گا جس نے اپنی فوج کو مفتوح قوم کے نہتے لوگوں، بچوں،عورتوں،بوڑھوں،معذوروں کے قتل عام سے منع کیاہو۔ بلکہ فتح کے بعد تین دن تک فوجوں کو کھلی چھٹی ہوتی تھی کہ وہ جو چاہیں مفتوح قوم کے ساتھ کریں۔ لیکن اسلام واحد ایسا مذہب ہے جس نے دشمنوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ان کے نہتوں،بچوں،عورتوں،بوڑھوں،ضعیفوں، معذورں وغیرہ کے قتل کی سخت ممانعت فرمائی۔

مگر بعد وفات مرسل اعظم خود امت محمدی نے خانوادہ نبوت و رسالت کے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھے اس اسلام و انسانیت کے دامن پر ایسا بدنما دھبّہ لگ گیا ہے جو قیامت مٹنے والا نہیں ہے۔

جناب مسلم ابن عقیل کی کوفہ میں بلائے ہوئے مہمان کی دردناک و وحشتناک شہادت کے واقعات پر کسی انسان کو آسانی سے یقین نہ آتا اگر اسی کوفہ میں مسلم ابن عقیل کے دو یتیم بچوں کی شہادت کے واقعات رونما نہ ہوئے ہوتے۔

اس مضمون کا اصل خلاصہ ایک جملہ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ’’جناب مسلم ابن عقیل کی شہادت کربلا کی خونی داستان کا مقدمہ ہے تو نونہالان مسلم ابن عقیل کی شہادتیں اس کا تتمہ ہیں‘‘۔

جناب مسلم بن عقیل حضر ت امام حسین ابن علی ؑ کے سفیر بن کے کوفہ گئے تھے توکیا ایک معصوم امام کا سفارت کار جہاں وہ جارہا ہے وہاں کے مذہبی،سیاسی،سماجی و معاشرتی حالات سے بے خبر ہوگا ؟یقیناً جناب مسلم ابن عقیل کا ہر قدم دور اندیشی اور مصلحت آمیزی پر مبنی رہا ہوگا۔پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسے خون آشام ماحول میں اپنے ساتھ اپنے دو عدد چھوٹے چھوٹے نو نہالوں کو کیوں لے کر گئے۔

اس سوال کا جواب ہمیں اس وقت مل جائے گا جب ہم اس امر پر غور و فکر کریں گے کہ امام حسین علیہ السلام اپنے ساتھ اپنے چھ ماہ کے شیر خوار بچے حضرت علی اصغر کو کیوں لے کر کربلا گئے تھے۔واضح رہے کہ

رواتیں بتاتی ہیں کہ مدینہ سے کربلا کے لئے روانگی کے وقت حضرت علی اصغر اپنی بیمار بہن جناب صغریٰ کی گود سے جدا نہیں ہو رہے تھے یعنی مولائے کائنات،مولود کعبہ کا پوتا کربلا نہیں جانا چاہتا تھا مگر امام حسین ؑ نے جھک کر علی اصغر کے کان میں کچھ کہا جس کے بعد علی اصغر ہمک کر امام حسین کی آغوش میں آگئے۔مطلب علی اصغر اب کسی اہم مصلحت و مشن کے تحت کربلا جانے پر آمادہ ہو گئے۔علماء کا بیان ہے کہ شاید امام حسین ؑ نے علی اصغر کے کان میں یہ کہا ہو کہ بیٹا اگر تم کربلا نہیں جاؤگے تو حرملہ کا تیر سہ شعبہ کا وار اپنے خشک گلے اور خشک لبوں کے ذریعہ کون روکے گا؟ روز قیامت ہماری مظلومیت اور یزیدیوں کی سفاکیت کی گواہی کون دے گا؟۔بس اسی مقصد سے امام حسین ؑ اپنے کمسن بچے علی اصغر کو ساتھ لے کر کربلا گئے تھے ۔ اور اپنے مشن میں باپ بیٹے دونوں فاتح قرار پائے ۔علی اصغر کو دنیا خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اقرار کرتی ہے کہ اصغر چھوٹاتھا مگر بڑا کام کرگیا۔ اور اسی مقصد سے مسلم ابن عقیل بھی اپنے کمسن بچوں کو لے کوفہ گئے تھے۔اور دونوں کامیاب رہے۔

کہا جاتا ہے ’’ہے ہماری درسگاہ کربلا کربلا‘،حق کا سیدھا راستہ کربلا کربلا ‘محض شعر کا مصرعہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ واقعہ کربلا کا ہر مجاہد خواہ بوڑھا ہو یا جوان ،مرد ہو یا زن ، یا پھر کوئی بچہ۔ سب ہی مثالی نمونہ ہیں۔ روزِ عاشور امام حسین علیہ السلام کی سپاہ میں کم سن بچے بھی قربانی دینے کے لئے پیش پیش رہے۔ خاندانِ بنی ہاشم کے دو بچے ایسے بھی تھے جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد جامِ شہادت نوش کیا۔ یہ دو بچے جن کا نام محمد اور ابراہیم تھا ،حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کے فرزند تھے۔ ان کی عمر اندازاً دس سے بارہ برس تھی۔

طِفْلان مُسْلِمْ :حضرت مسلم بن عقیل کے دو فرزند محمد اور ابراہیم کو کہا جاتا ہے جو واقعہ کربلا میں امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد کوفہ میں اسیر ہوئے۔ کچھ مدت جیل میں رہنے کے بعد جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن عبیداللہ بن زیاد کے کسی کارندے کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہوئے۔

امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد مسلم بن عقیل جسے امام حسین (ع) نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تھا لیکن کوفہ والوں کی بے وفائی کی وجہ سے آپ کوفہ میں ابن زیاد کے ہاتھوں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید ہوئے، کے دو فرزند محمد و ابراہیم بھی اسیر ہوئے اور عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر انھیں کوفہ میں کسی جیل میں بند کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ دو نوجوان دو سال تک کوفہ میں اسیر رہے اس کے بعد مشکور نامی زندان بان جو اہل بیت کا دوستدار تھا کی مدد سے رات کو زندان سے فرار ہو گئے۔

یہ دو بچے دو دن تک ایک بوڑھی عورت کے ہاں مہمان رہے جو اہل بیت کے محبین میں سے تھی جس کا شوہر ابن زیاد کی فوج میں کام کرتا تھا۔ رات کو جب اس کا شوہر گھر آیا تو ان دو بچوں کی موجودگی کا علم ہوا یوں اس بدبخت نے انھیں صبح سویرے نہر فرات کے کنارے لے جا کر شہید کر دیا۔ ان کے لاشوں کو نہر فرات میں پھینک دیا جبکہ ان کا سر کاٹ کر ابن زیاد کے ہاں لے گیا چونکہ اس نے ان دو بچوں کو گرفتار کرنے والے کے لیے انعام کا وعدہ دیا ہوا تھا۔

شہادت نونہالان مسلم ابن عقیل علیہ السلام :

شیخ صدوق کے مطابق اہل کوفہ کے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ: جب امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے تو میدان کربلا سے مسلم کے دو شہزادوں کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس لایا گیا-

ابن زیاد ملعون نے زنداں کے داروغہ کو بلایا اور کہا: ان دو بچوں کو زندان میں ڈال دو اور ان پر سختی کرو- ان کو اچھا کھانا اور ٹھنڈا پانی ہرگز نہ دینا. اس نے ایسا ہی کیا.

وہ مظلوم بچے اس زنداں کی تنگی اور تاریکی میں رورو کر زندگی بسر کرتے رہے. دن کو روزہ رکھتے اور رات کو جو کی ایک ایک روٹی اور گرم پانی سے، جو حکومت کی طرف سے، افطار کر لیتے تھے-

یہ مدت ایک سال ہو گئی تو ایک بھائی نے دوسرے سے کہا:ہماری زنداں کی مدت بہت لمبی ہو گئی ہے، اس طرح تو ہم قید خانے میں ہی مر جائیں گے اور ہمارے جسم اس قید خانے میں ہی ختم ہو جائیں گے. لہٰذا اپنا تعارف کرائیں شاید داروغہ کو ہم پر رحم آ جائے. جب شام کو داروغہ کھانا دینے آیا تو چھوٹے شہزادے نے کہا:اے بزرگ! کیا آپ حضرت محمد صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو پہچانتے ہیں؟

اس نے کہا: ہاں پہچانتا ہوں، وہ تو میرے نبی ہیں.

پھر شہزادے نے کہا:کیا جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو جانتے ہیں؟

اس نے کہا: کہ ہاں پہچانتا ہوں جعفر تو وہ شخصیت ہیں کہ خدا نے جنت میں ان کو دو پر عطا کیے ہیں تاکہ ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے رہیں.

بچے نے کہا: کیا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو پہچانتے ہو؟

اس نے کہا: ہاں انکو کیسے نہ پہچانوں، وہ تو میرے امام ہیں.

پھر شہزادے نے کہا: اے بزرگوار! ہم تمہارے پیغمبر کی عترت و ذریت ہیں- ہم مسلم بن عقیل کے بیٹے ہیں اور تمہارے ہاتھوں گرفتار ہیں- ہم پر اس قدر سختی نہ کر، کچھ نہ کچھ پیغمبر اسلام (ص) کی وجہ سے ہم پر مہربانی فرماؤ-

جونہی اس شیخ نے یہ بات سنی تو شہزادوں کے قدموں میں گر پڑا اور پاؤں کو بوسہ دے کر کہنے لگا:

اے ذریت پیغمبر! میری جان تم پر قربان، ابھی زنداں کا دروازہ کھولتا ہوں، جہاں جانا چاہو چلے جاؤ-

اس طرح جب داروغہ رات کا کھانا لے کر آیا تو بچوں کو زنداں سے آزاد کر دیا اور کہا کہ میری آنکھوں کے نور تمہارے دشمن بہت زیادہ ہیں ان سے بچتے رہنا اور رات کو سفر کرنا اور دن کو چھپ کر آرام کرنا.

یہ شہزادے سفر کرتے کرتے ایک بوڑھی ضعیفہ کے گھر پہنچے اور اس ضعیفہ نے ایک کمرے میں انہیں چھپا دیا-

دیر رات جب اس عورت کا داماد آیا تو اس نے اپنی بوڑھی ضعیفہ کو بچوں کے زندان سے نکل جانے اور انعام کے اعلان کا بتایا- عورت نے اسے نصیحت کی کہ پیغمبر کی دشمنی سے پرہیز کرو. عورت نے دروازہ کھولا اور اسے کھانا دیا. رات کو اس نے شہزادوں کی سانسوں کو چلتا محسوس کیا تو مشتعل اونٹ کی طرح اٹھا اور غصے سے آوازیں نکالنے لگا- اور سانسوں کی آواز کو سنتا ہوا شہزادوں تک جا پہنچا اور اس کا نجس ہاتھ چھوٹے شہزادے کے بالوں تک جا پہنچا.

مظلوم شہزادے نے کہا اگر ہم سچ بتا دیں تو کیا تو ہمیں تکلیف تو نہ دے گا؟

اس نےان کی جان کی امان کا اقرار کیا تو شہزادوں نے اپنا تعارف کرا دیا- جب صبح ہوئی تو اس ملعون نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ نہر فرات کے کنارے لے جا کر انہیں قتل کر دو. لیکن جب غلام کو انکے ذریت پیغمبر ہونے کا علم ہوا تو اس نے خود نہر میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی-

حارث خبیث نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ انہیں قتل کر دو اس نے بھی باپ کے حکم کی مخالفت کی اور نہر کے دوسرے کنارے چلا گیا.

جب اس نے یہ حال دیکھا تو خود تلوار لہراتا ہوا شہزادوں کے نزدیک آیا. شہزادوں نے رحم کی فریاد کی اور کہا کہ ہمارے چھوٹے سن اور بچپن پہ رحم کر- اس نے کہا کہ خدا نے میرے دل میں رحم پیدا ہی نہیں کیا.

پس طفلان مسلم نے نماز کی مہلت مانگی- اور چار چار رکعت نماز ادا کی اور الله تعالیٰ کے فریاد کی کہ ہمارے اور اس کے درمیان تو ہی فیصلہ فرما. اسی وقت اس ملعون نے بڑے شہزادے پر تلوار کھینچی اور سر تن سے جدا کر دیا- اور سر کو ٹوکری میں رکھ لیا- جب چھوٹے شہزادے نے یہ منظر دیکھا تو اپنے بھائی کے سر سے لپٹ گیا اور کہا کہ میں اپنے بھائی کے خون سے خضاب کرتا ہوں تاکہ اسی حالت میں رسول خدا (ص) سے ملوں.

اس ملعون نے کہا کہ میں ابھی تجھے تیرے بھائی سے ملحق کرتا ہوں اوراس نے چھوٹے شہزادے کا سر بھی تن سے جدا کر دیا اور ان کو ٹوکری میں ڈال کر عبید الله کے دربار میں جا پہنچا-

عبید الله ملعون کی نظر جب ان نورانی سروں پر پڑی تو تین دفعہ کرسی سے اٹھا اور بیٹھا- اور قاتل سے مخاطب ہو کر کہا کہ تو برباد ہو جائے تو نے انہیں کہاں سے تلاش کیا.

حارث ملعون نے کہا کہ یہ ایک بوڑھی عورت کے مہمان تھے-

ابن زیاد کو یہ جواب ناگوار گزرا، اس نے کہا تو نے ان کے مہمان ہونے کا بھی لحاظ نہ کیا اور اس کے قتل کا حکم دے دیا اور کہا کہ اس کو اسی نہر کے کنارے لے جا کر قتل کر دو اور اس کا سر میرے پاس لے آؤ-

جب کوفہ کےبچوں نے اس ملعون کا سر نوک نیزہ پر دیکھا تو اسے پتھر مارنے لگے اور کہنے لگے یہی ہے منکر ذریت پیغمبر .....

الله نے طفلان مسلم کی فریاد کو سنا اور ان کے اور حارث کے درمیان فیصلہ فرما دیا-

لعنت بر حارث ملعون .....لعنت بر ابن زیاد ملعون .....{مدینہ سے مدینہ تک، صفحہ: ١٣٠-١٣٥}

واقعہ شہادت کو مزید تفصیل کے ساتھ جاننے کے لئے مقتل یا مجالس کی کتابوں کامطالعہ فرما سکتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .