۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
حجاج

حوزہ/یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔ ہر نعمت کا وجود اس عظیم نعمت کے طفیل میں ہے۔اکمال دین اور اتمام نعمت کا انحصار اسی ولایت علی ؑ کے اعلان پر منحصر تھا۔

یادداشت: الحاج ماسٹر ساغر حسینی املوی

حوزہ نیوز ایجنسی| یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔ ہر نعمت کا وجود اس عظیم نعمت کے طفیل میں ہے۔اکمال دین اور اتمام نعمت کا انحصار اسی ولایت علی ؑ کے اعلان پر منحصر تھا،جب میدان غدیر میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں پیغمبر اسلام نے ولایت علی ؑ کا اعلان فرمایا تب یہ آیت نازل ہوئی’’آج کے دن ہم نے آپ کے لئے دین کو مکمل کردیا اور نعمتوں کو تمام کردیا اور تمھارے لئے دین اسلام سے ہم راضی ہوگئے‘‘۔(سورہ المائدہ آیت 3 )

رسول خداؐ ہجرت کے دسویں سال، 24 یا 25 ذیقعدہ کو ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے ساتھ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہؐ کا یہ حج حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام اور حجۃ البلاغ کہلاتا ہے۔

اس وقت امام علیؑ تبلیغ کے لیے یمن گئے ہوئے تھے، جب آپؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حج پر جانے خبر ملی تو یمنی مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور اعمال حج کے آغاز سے قبل ہی رسول اللہؐ سے جا ملے۔ حج کے اختتام پر رسول خداؐ مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے۔

فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو پیغمبر اکرمؐ کی معیت میں غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ جہاں سے شام، مصر اور عراق وغیرہ سے آنے والے حجاج اس عظیم کاروان سے جدا ہو کر اپنے اپنے مقرر ہ راستوں سے اپنے ملکوں کی طرف جانا تھا اتنے میں جبرائیل آیت تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا کہ علیؑ کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں۔

آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹنے اور پیچھے رہ جانے والوں کو جلدی جلدی غدیر خم کے مقام پر آپؐ تک پہنچنے کا حکم دیا۔

نماز ظہر ادا کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ دیا جو خطبۂ غدیر کے نام سے مشہور ہوا اور اس کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا یہاں تک کہ سب نے آپؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں دیکھ لیا اور اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا:اے لوگو! کیا میں تمھاری نسبت تم پر مقدم نہیں ہوں؟"، لوگوں نے جواب دیا: "کیوں نہیں اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم"؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "خداوند متعال میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس جس جس کا میں مولا ہوں علیؑ بھی اس کے مولا ہیں"۔

الحمد للہ اس سال ہمیں اللہ نے یہ سعادت بخشی کہ حج ۲۰۲۴ء سے فراغت کے بعد اپنے کچھ دوست و احباب حاجی صاحبان کے ساتھ عید َغدیر ِخم کے پر مسرت و لطف اندوز لمحات، میدان ِغدیر ِخم میں گزارنے کا حسین موقع میسر ہوا۔

ہم نے میدان غدیر کی خوب گھوم پھر کر زیارت کی پھر مقام جحفہ میں عمرہ مفردہ کا حرام باندھ کر مکہ مکرمہ آئے اور اعمال و مناسک عمرہ مفردہ بجا لائے۔اس کے بعد البیک ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ پارٹی رکھی گئی،اس سے قبل بلڈنگ میں بھی محفل اور نیاز کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کیونکہ عید غدیر کے اعمال میں یہ بھی مذکور ہے کہ مومنین کی دعوت و ضیافت بھی کرنی چاہیئے۔اسی دن بزرگ محترم جناب شیخ مہدی بھائی اور جناب سید قنبر مہدی ٹور اینڈ ٹراول ممبئی سے بھی خصوصی ملاقات ہوئی۔ خدا گواہ ہے یہ دن ہماری زندگی میں ہمیشہ یادگار رہے گا ان شاء اللہ الرحمان کیونکہ غدیر خم کا واقعہ مومنین کے دلوں کو ہر صبح نو کے ساتھ نئی تازگی و تابندگی عطا کرتا ہے۔

عید َغدیر ِخم کے پر مسرت و لطف اندوز لمحات، میدان ِغدیر ِخم میں

میرا جذبہ عقیدت و جوش محبت ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے سرشار دل یہ کہتا ہے کہ اگر پہلی وحی کے نزول کے سبب سے مکہ میں" جبل حراء" اور" خطبۃ الوداع‘‘ یا جبل رحمت کے دامن میں پیغمبر اسلام کے وقوف فرمانے کی نسبت سے میدان عرفات میں"جبل رحمت" مسلمانان عالم کے لئے عموما اور حجاج کرام کے لئے خصوصا زیارت اور ثواب اور دعاء کا مرکز ہیں تو اپنی بے پناہ تاریخی خصوصیات کے باوجود "میدان غدیر خم" اکمال دین و اتمام نعمت کی آیات کے نزول کے اعتبار سے کتنی عظمتوں اور برکتوں کا مقام ہونا چاہئیے ؟ مگر افسوس شاید سعودی حکومت کی مسلکی تنگ نظری اور سقیفائی مسلک کے لوگوں نے عمدا مقام غدیر کی تعمیر و ترقی سے کنارہ کشی کی ہے تو غدیری مکتب کے پیروکاروں نے بھی غدیر کی یاد کو خاطر خواہ طور پر منانے میں جذبہ ایمانی کا بھر پور مظاہرہ نہیں کیا یعنی غدیر خم ایسے مرکزی مقام کو شاد وآباد بنانے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔فی الحال اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کم از کم ہر مولائی حجاج کرام میدان غدیر خم ضرور جانے کی کوشش کریں جائیں،جحفہ سے عمرہ مفردہ کا احرام باندھیں تو معنوی اجر و ثواب کے ساتھ اس کی ظاہری رونق و زیبائش میں اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں۔

شاید بزبان بے زبانی میدان کربلا کا بھی یہ مطالبہ ہو کہ کربلا کو آباد کرنے والو ایک نظر عاشقی میدان غدیر کی طرف بھی۔

عید َغدیر ِخم کے پر مسرت و لطف اندوز لمحات، میدان ِغدیر ِخم میں

عید َغدیر ِخم کے پر مسرت و لطف اندوز لمحات، میدان ِغدیر ِخم میں

تبصرہ ارسال

You are replying to: .