۱۸ تیر ۱۴۰۳ |۱ محرم ۱۴۴۶ | Jul 8, 2024
IMG-20240705-WA0075.jpg

حوزہ/ ایرانی صدر آیت اللہ رئیسی اور ان کے رفقاء کے ایصال ثواب کے لئے مجلس چہلم کا انعقاد ،ایرانی علماءبھی شریک ہوئے ،مجلس کو مولانا کلب جواد نقوی نے خطاب کیا اور نمائندۂ ولی فقیہ آقای مہدوی پور کہا کہ انقلاب اسلامی ایران استغاثۂ امام حسینؑ کا جواب ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ جمہوری اسلامی ایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی ،وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور ان کےساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والی شخصیات کے ایصال ثواب کے لئے درگاہ حضرت عباس رستم نگر لکھنؤ میں مجلس علمائے ہند کی جانب سے مجلس چہلم کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ایران سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمانوں ،نمائندہ ولی فقیہ آقائی شیخ مہدی مہدوی پور اور دیگر علمانے شرکت کی ۔مجلس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے قاری صائم رضا نے کیا ۔اس کے بعد مولانا شباہت حسین ،مولانا تسنیم مہدی زید پوری ،مولانا صفدر حسین جونپوری اور مولانا رضا حیدر زیدی نے شہداء کی عظمت اور آیت اللہ رئیسی کے خدمات پر اجمالی روشنی ڈالی ۔ان کے بعد ایران سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں نے حاضرین کو خطاب کیا ۔

آیت اللہ رئیسی نے مسلمانوں کو ایک نقطہ پر جمع کیا اور ہمیشہ اسلام کی راہیں استوار کیں

ہندوستان میں نمائندہۂ ولی فقیہ حجۃ الاسلام آقائی شیخ مہدی مہدوی پور نے افتتاحی تقریر کرتے ہوئے تمام مہمانوں کا اجمالی تعارف پیش کیا۔انہوں نے دوران تقریر آیت اللہ رئیسی کی شہادت پر سوگواری کے لئے حکومت ہند،پارلیمنٹ اور عوام کا بے حد شکریہ اداکیا ۔انہوں نے کہاکہ انقلاب ایران ہزار ہا پابندیوں اور دشمنی کے بعد بالآخر روز بہ روز ترقی کی راہ پر گامزن ہے ،اس کے تین بنیادی اسباب ہیں ۔ایک تویہ کہ انقلاب اسلامی ایران عوام کا انقلاب ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت اللہ رئیسی کی شہادت کے بعد جس طرح لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ عوامی انقلاب ہے ۔دوسرا سبب حکومت ولایت فقیہ ہے جو انقلاب اسلامی کی مستحکم بنیاد اور رکن رکین ہے ۔تیسرا سبب انقلاب اسلامی ایران کا انقلاب کربلا سے ہم آہنگ ہونا ہے ۔یہ انقلاب اسلامی درحقیقت استغاثۂ امام حسینؑ’ھل من ناصرِِ‘‘ کا جواب ہے اس لئے اس انقلاب کو انقلاب امام حسینؑ کہاجاتاہے۔انہوں نے مجلس چہلم کے انعقاد کے لئے مجلس علمائے ہند اور مولانا کلب جواد نقوی کا شکریہ بھی ادا کیا۔

آیت اللہ رئیسی نے مسلمانوں کو ایک نقطہ پر جمع کیا اور ہمیشہ اسلام کی راہیں استوار کیں

سابق رکن پارلمان اور مشاور آیت اللہ رئسی حجۃ الاسلام آقائی ملک محمدی نے اپنے خطاب میں شہادت کی عظمت کو بیان کیا اور کہاکہ انقلاب اسلامی ایران کربلا کے انقلاب کے نقش قدم پر ہے یہی وجہ ہے کہ ایران نے کبھی ظالموں کے سامنےسر نہیں جھکایا ۔کیونکہ ظالموں کے خلاف کھڑا ہونا امام حسینؑ کی سیرت ہے۔

مکمل تصاویر دیکھیں:

لکھنؤ میں ایرانی صدر آیت اللہ رئیسی اور ان کے رفقاء کے ایصال ثواب کے لئے مجلس چہلم کا انعقاد

انہوں نے آیت اللہ رئیسی کے خدمات اور اہم کارناموں پر بھی روشنی ڈالی اور کہاکہ آیت اللہ رئیسی نے حرمت قرآن مجید کا تحفظ کیا اور جب لوگ قرآن مجید کی توہین کررہے تھے انہوں نے اقوام متحدہ میں قرآن مجید کو بلندکرکے اس کی حرمت کی پاسداری کی،جس طرح امام حسینؑ نے کربلاکے میدان میں قرآن مجید کو بلند کرکے آخری حجت قائم کی تھی ۔انہوں نے کہاکہ آیت اللہ رئیسی مظلوموں کے مددگار تھے ۔انہوں نے مسئلۂ فلسطین کوعالم اسلام کا مسئلہ قراردیااور اسرائیل کے منصوبوں پر پانی پھیردیا۔

آیت اللہ رئیسی نے مسلمانوں کو ایک نقطہ پر جمع کیا اور ہمیشہ اسلام کی راہیں استوار کیں

معاون مشاور رئیس جمہور اور رئیس مرکز ارتباطات ریاست جمہوری اسلامی ایران حجۃ الاسلام آقای احمد صالحی نے اپنے خطاب کے آغاز میں آیت اللہ رئیسی اور ان کے رفقاکی شہادت پر ایک دن کےسوگ کے اعلان کے لئے حکومت ہند اور عوام کاشکریہ اداکیا ۔انہوں نے کہاکہ جس طرح ہندوستان کے لوگوں نے اس سانحے پر یکجہتی کا اظہار کیاہم اس کے لئے بے حد شکرگزار ہیں ۔انہوں نے ہندوستان کی قوم کو تاریخ ساز قوم قراردیتے ہوئے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی زندگی اور ان کے انقلاب پر بھی روشنی ڈالی ۔انہوں نے لکھنؤ کے درخشاں ماضی کو بھی یاد کیا اور کہاکہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں مجددالشریعۃ آیت اللہ سیددلدار علی غفران مآب نےاسلام اور شیعیت کی ترویج کی اور پہلی بار نماز جمعہ و جماعت کا قیام کیا۔انہوں نے کہاکہ یہ سرزمین آیت اللہ غفران مآب اور ان کے شاگردوں کے کارناموں سے ضیابار ہے ۔خاص طورپر علامہ میر حامد حسینؒ کہ جنہوں نے عبقات الانوار کے ذریعہ دنیائے اسلام میں سرزمین لکھنؤ کی انفرادی حیثیت قائم کی ۔انہوں نے کہاکہ اس سرزمین پر ایسے کتب خانے قائم تھے جس سے پوری دنیا کے علماء نے کسب فیض کیا جن میں علامہ امینیؒ بھی شامل ہیں ۔آقای صالحی نے کہاکہ امام خمینیؒ ہوں یا رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای ،مجددالشریعۃ آیت اللہ غفران مآب ہوں یا علامہ میر حامد حسینؒ یا پھر علامہ امینیؒ ہوں ،یہ سب کے سب ایک ہی درسگاہ کے پروردہ تھے ۔اس درسگاہ کا نام کربلاہے اور ان کے استاذ اور پیشوا کا نام حسینؑ ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ ہندوستان کے شیعوں کو یہاں کے علمائے کرام کی قدر دانی کرنا چاہیے اور ان کی عظمت کو جانیں ۔اپنی صفوں میں انتشار پیدانہ ہونے دیں اور اتحاد کو قائم رکھیں۔آقای محمد صالحی جو تقریباً تیس سالوں تک شہید آیت اللہ رئیسی کے ساتھ رہے ،انہوں نے شہید رئیسی ؒکی زندگی اور خدمات کا اجمالی خاکہ پیش کیا اور کہاکہ وہ عاشق خدمت تھے ۔انہوں نے ہمیشہ خدمت خلق کو ترجیح دی اور بے لوث کام کیا۔انہوں نے کہاکہ آیت اللہ رئیسی نے ہمیشہ وحدت اسلامی کی راہیں استوار کیںاور عالم اسلام کو ایک نقطۂ ارتکاز پر جمع کیا۔

آیت اللہ رئیسی نے مسلمانوں کو ایک نقطہ پر جمع کیا اور ہمیشہ اسلام کی راہیں استوار کیں

آخر میں مجلس عزا کو خطاب کرتے ہوئے مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سیدکلب جوادنقوی نے کہاکہ آیت اللہ رئیسی ،وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور ان کے ساتھ شہید ہونے والی شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے کارناموں کا ذکر کیا۔انہوں نے کہاکہ جب قرآن مجید کی توہین پر تمام مسلمان حکمران خاموش تھے اور صرف رسمی بیان دے رہے تھے اس وقت آیت اللہ رئیسی نے پرچم اسلام کو بلند کیا اور اقوام متحدہ میں قرآن مجید کی حرمت کا تحفظ کرتے ہوئے مسلمانوں کو قعر ذلت سے نکالا۔مولانانے کہاکہ آیت اللہ رئیسی نے ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کی اور فلسطین کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔انہوں نے اسرائیل پر حملہ کرکے اس کے بدنمارخسار پر ایسابھرپور طانچہ رسید کیا کہ جس کے بعد اس کو آج تک جواب دینے کی ہمت نہیں ہوسکی ۔آیت اللہ رئیسی نے اسرائیل کے عالمی رعب اور چودھراہٹ کو ختم کرنے میں اہم کردار اداکیا اور اس کی طاقت کے بھرم کو چور چور کردیا۔مولانانے کہاکہ ظلم اور ظالموں کے خلاف کھڑا ہونا مسلمان کی صفت ہے لیکن افسوس فلسطین میں جاری نسل کشی پر مسلمان حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔یہ حکمران مسلمان نہیں ہیں بلکہ استعمار کے غلام اور ان کے آلۂ کار ہیں ۔مولانانے کہاکہ ایران نے ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کی اور مسئلۂ فلسطین کو زندہ رکھا۔آج حزب اللہ ،انصار اللہ اور خطے میں موجود مقاومتی محاذ کے نوجوان فلسطین کے لئے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں ۔ان شاءاللہ ان کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی ۔آخر مجلس میں مولانانے واقعۂ کربلا کو بیان کیا جس پر سامعین نے بے حد گریہ کیا۔

آیت اللہ رئیسی نے مسلمانوں کو ایک نقطہ پر جمع کیا اور ہمیشہ اسلام کی راہیں استوار کیں

مجلس میں ایران سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں نے خاص طورپر شرکت کی جن میں معاون فرہنگی وزارت علوم تحقیقات و فناوری آقائی ڈاکٹر عبدالحسین کلانتری ،آقائی ڈاکٹر محمد رضا عبدیائی ،پروفیسر سید عمادالدین موسوی عباسی ،اور دیگر افراد موجود تھے ۔مجلس میں شہر لکھنؤ کے علمائے کرام نے بھی شرکت کی جن میں مولانا قربان علی ،مولانا محمد میاں عابدی،مولانا تسنیم مہدی ، مولانا سید عباس رضا عابدی خادم حرم امام رضا ، مولانا شباہت حسین ،مولانا قمرالحسن ،مولانا شاہنواز حیدر ،مولانا مکاتیب علی خان ،مولانا ڈاکٹر علی سلمان رضوی،مولانا محفوظ علی ،مولانا یونس جعفری مکن پورشریف ،حافظ شفقت علی جعفری مکن پور شریف ،مولانا کلب احمد نقوی اور دیگر علما شامل تھے ۔نظامت کے فرائض عادل فراز نے انجام دئیے ۔آخر میں تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ بھی اداکیا گیا۔فارسی تقاریر کے ترجمہ کی ذمہ داری مولانا تقی حیدر نقوی اور مولانا منظر صادق زیدی نے اداکی ۔مجلس سے ٹھیک پہلے آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی زندگی پر مشتمل کتاب ’بے لوث خدمت گزار‘ اور ’خادم الرضاؑ‘ کی رسم اجرا عمل میں آئی ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .