حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، اربعین کے ایام اور سفر کے متعلق حوزہ علمیہ کی آفیشل سائٹ کا ایک خصوصی پروگرام "شبهات اربعین" کا جواب دینا ہے جس میں دو مذہبی ماہرین مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔
اس تحریر میں حجت الاسلام رضا پارچهباف نے سفرِ اربعین میں بیوی کے لئے شوہر کی اجازت کے ضروری ہونے سے متعلق سوال کا جواب دیا ہے۔
سوال:
زیارت اربعین امام حسین علیہ السلام ایک اہم زیارت اور مومن کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس زیارت کے دوران شوہر اور بیوی ایک ساتھ نہیں جا سکتے اور ان دونوں میں سے صرف ایک ہی اس سفر پر جا سکتا ہے۔
کبھی شوہر اپنے کام وغیرہ کی وجہ سے اربعین کے سفر پر نہیں جا سکتا تو کیا ایسی صورت میں بیوی اکیلی اس سفر پر جا سکتی ہے؟ کیا اخلاقی طور پر یہ درست ہے کہ خواتین اکیلی اس سفر پر جائیں؟
کیا اس بافضیلت زیارت کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے؟
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اللہ نے مرد کو یہ اختیار دیا ہے کہ بیوی کے گھر سے باہر نکلنے کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہو، تو یہ حکمتِ خدا پر مبنی ہے؛ نہ کہ مرد کی طاقت کے مظاہرے یا خودغرضی کی وجہ سے؛ بلکہ اس کا مقصد زندگی کی بہتر ترتیب اور اخلاقی و سماجی مسائل کو کنٹرول کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار زیادہ تر مرد کی قدرت اور قوت کی وجہ سے دیا ہے۔
اگر واقعی شوہر یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ اس کی بیوی اس سفر پر جائے، مثلاً ہجوم اور بے پردگی وغیرہ کی وجہ سے، یا دل سے راضی نہیں ہوتا، تو بہتر ہے کہ عورت اس سفر سے گریز کرے، چاہے شوہر نے زبانی اجازت بھی دے دی ہو؛ مگر یہ کہ وہ واقعی شوہر کے دلی طور پر راضی کر سکے۔ ایسے معاملات میں عورت کو اپنے وسائل و امکانات اور محرم کے ساتھ اس سفر پر جانا چاہیے۔
لہذا، سفرِ اربعین کے لئے بھی شوہر کی قلبی رضامندی ضروری ہے اور اگر وہ خاتون شوہر کی مرضی نہ ہونے کی وجہ سے اس بابرکت سفر پر نہ جا سکے تو پھر بھی اس سفر کی فضیلت سے محروم نہیں ہوگی (یعنی چونکہ اس کی نیت زیارت امام حسین علیہ السلام کی تھی توخداوند متعال اسے زیارت کا ثواب بھی اور شوہر کی اطاعت کا ثواب بھی عطا کرے گا)۔