۱ آبان ۱۴۰۳ |۱۸ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 22, 2024
اسرائیل

حوزہ/غاصب صیہونی منصوبے کے مطابق، گریٹر اسرائیل میں نہ صرف فلسطین، لبنان اور اردن، بلکہ عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ عرب حکومتوں کو خبردار رہنا چاہیے، کیونکہ اسرائیل ان کے علاقوں پر بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔

تحریر: نواب علی اختر

حوزہ نیوز ایجنسی | غاصب صیہونی منصوبے کے مطابق، گریٹر اسرائیل میں نہ صرف فلسطین، لبنان اور اردن، بلکہ عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ عرب حکومتوں کو خبردار رہنا چاہیے، کیونکہ اسرائیل ان کے علاقوں پر بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔

مسئلہ فلسطین ایک مردہ مسئلے کی شکل کے بجائے اب خطے کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے اور اس کے لئے ہمیں ’طوفان الاقصیٰ‘ کے منصوبہ سازوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے، جنہوں نے مسئلہ فلسطین کو ایک مرکزی مسئلہ بنا دیا جبکہ 7 اکتوبر سے پہلے فلسطینی کاز کو ایک بھولا بسرا مسئلہ سمجھا جانے لگا تھا۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد کے حالات نے دو دہائیوں تک طاقِ نسیاں میں رہنے کے بعد، مسئلہ فلسطین کو ایک مرکزی مسئلے میں تبدیل کر دیا اور اسے طوفان الاقصیٰ کی سب سے اہم کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ بلاشبہ اسے استعماریت کے خلاف مقاومت کی بڑی کامیابی کہا جائے گا جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس کی حفاطت کے لئے گزشتہ 70 برس سے زائد عرصہ سے جاری جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

یہ مقاومت دنیا کی واحد ایسی تحریک ہے جو جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل صہیونی آئرن ڈوم کے مقابلے فلسطینی شہری پتھر اور لکڑی کی چھڑیوں سے کر رہے ہیں جس میں وہ کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ یقیناً فلسطین کے شہری دنیا میں زندہ قوموں کی مثال ہیں جو اپنی زمین کی حفاطت کے لئے کچھ بھی قربان کرنے پر آمادہ ہیں اور حق کی راہ میں اپنے قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں ہیں خواہ انہیں غاصب اسرائیل کی بمباری میں اپنے بچوں کی خون سے لت پت لاشیں ہی کیوں نہ اٹھانا پڑیں۔ یاد رہے کہ اللہ کی امداد ڈھیلا اور مچھر کو ہتھیار بنا دیتی ہے اور لکڑی اور جالے کو آب حیات۔ خدا ایک متکبر بادشاہ کو ایک مچھر کے ذریعے ذلیل کرتا ہے اور ایک اولو العزم کو باجرے کے دانے سے عزت دیتا ہے۔

دائرہ وجود میں مچھر اور باجرے کے دانے کو جوڑ لینا خدا کا کام ہے، لیکن اللہ کی نصرت صرف ان لوگوں کے لئے مختص ہے، جو غزہ کی پٹی کو احد کی گھاٹی کی طرح چھوڑ کر نہیں بھاگتے۔ قبلہ اول کی فتح کی شرط صرف دنیاوی قبلے کی طرف پیٹھ پھیرنا ہے۔ خود ساختہ اور درماندہ غاصبوں کو غلط فہمی ہوئی ہے ’نہر سے بحر‘ ( یعنی دریائے اردن سے بحیرہ روم تک) کی یہ سرزمین (فلسطین) اللہ کے مستضعف بندوں کی غیر منقولہ جائیداد ہے، نہ کہ ہانکے ہوئے مستکبروں کی ’ارض موعود‘۔ فتح و نصرت صرف ان لوگوں کی قسمت میں ہے جو نہ ڈریں اور نہ ڈرائیں۔ اس تہذیبی تنازع کا فاتحہ محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت) ہے، فتنہ کثیرہ پر فتنہ قلیلہ کی فتح کا راز ’خدائی بننا‘ ہے۔

فلسطین پر غاصب اسرائیل کے قیام کے بعد سے ہی صیہونیوں نے جہاں اپنے سیاسی و معاشی عزائم کی بنیاد بنائی تھی، وہاں ان کے سامنے مذہبی عنصر بھی موجود تھا، لہذا اس لیے انہوں نے فلسطین سے مسلمانوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینیوں کو بھی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی نسل کشی کا شکار بنایا گیا۔ آج بھی موجودہ حالات میں جہاں مساجد اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہی ہیں وہاں فلسطین، شام و لبنان میں عیسائی عبادت خانے یعنی چرچ بھی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ صیہونیوں نے اپنے مذہبی جھوٹے اور من گھڑت عقائد سے اپنے صیہونی آباد کاروں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ صیہونی ہی دنیا کی سب سے بہترین قوم ہیں۔

صیہونیوں کے من گھڑت مذہبی عقائد میں ایک عقیدہ نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدوں کا معاملہ بھی ہے، جس پر ہمیشہ سے ہی صیہونیوں نے زور دیا ہے۔ جس وقت فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط قائم کیا گیا تھا اس وقت بھی صیہونزم کے بانیوں نے اس بات کی تکرار کی تھی کہ فلسطین پر قائم ہونے والی صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود صرف فلسطین تک نہیں ہے بلکہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں گی اور اس کو گریٹر اسرائیل کہا جائے گا۔ اسرائیل کا مقصد صرف فلسطین پر قبضہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس کی غاصب نظریں شام، لبنان، اردن اور عراق کے ساتھ عرب ممالک پر بھی گڑی ہوئی ہیں اور اس ناپاک منصوبے کا نقشہ صہیونیوں کی سرکاری ویب سائٹ پر ہے جس کو ’گریٹر اسرائیل‘ کا نام دیا گیا ہے۔

غاصب صیہونیوں کی جانب سے بیان کردہ گریٹر اسرائیل میں 100 فیصد فلسطین، 100 فیصد لبنان، 100 فیصد اردن، 70 فیصد شام کے علاقہ جات، 50 فیصد عراق کے علاقہ جات، 33 فیصد سعودی عرب کے علاقہ جات، 30 فیصد مصر کا علاقہ، 50 فیصد کویت کا علاقہ شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ علاقے ترکیہ کے بھی اس نقشے میں شامل ہیں۔ ان سب کو ملا کر نیل سے فرات کا خواب دیکھا جا رہا ہے، جسے صیہونیوں نے گریٹر اسرائیل کا نام دیا ہے۔ صہیونیوں کے جبر و ظلم میں اقوام متحدہ بھی برابر شریک ہے کیونکہ امن و امان کے قیام اور انصاف کی رسائی کے لئے قائم کئے گئے اس ادارے کے اعلان (1947) کے مطابق ہی فلسطین ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے ہاتھوں فلسطین کے خلاف ہونے والی خیانت آج 2024 میں یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب صرف غزہ اور مغربی کنارہ باقی ہیں، باقی ماندہ پورے فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز تسلط ہے۔ صیہونیوں کا بنیادی مقصد ہے کہ وہ پورے کے پورے فلسطین جیسا کہ’ گریٹر اسرائیل‘ کے لیے ان کو 100 فیصد فلسطین پر تسلط چاہیے، اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں، لیکن فلسطین کی مزاحمت اس ناپاک منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لئے حماس کو ختم کرنے اور صہیونیوں کا وجود باقی رکھنے کے لئے یہودی دنیا متحد ہو رہی ہے۔ اب گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے لیے اسرائیل چاہتا ہے کہ پہلے مکمل فلسطین پر قبضہ کیا جائے اور پھر باقی ممالک کی طرف پیش قدمی کرے۔

اس صورتحال میں جب غزہ اور لبنان لہو لہان ہیں اور خطے کی حکومتیں ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو پھر ان تمام عرب حکومتوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ ’گریٹر اسرائیل‘ کے طے شدہ نقشے اور منصوبے کے تحت اسرائیل ان عرب حکومتوں سے بھی اپنے معین کردہ اور بیان کردہ علاقوں کو چھین لے گا۔ یہ جنگ در حقیقت ان تمام عرب ریاستوں کے بقاء کی ہے جن کا ذکر ’گریٹر اسرائیل‘ میں ہے۔ یہ جنگ فلسطین کی حمایت میں غاصب صیہونیوں سے نبرد آزما لبنان، ایران یا عراق کی بقاء کی نہیں ہے بلکہ یہ سعودی عرب اور کویت سمیت ترکی اور ہر اس حکومت و قوم کی جنگ ہے جس کو صہیونیوں نے ہڑپنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ عرب حکومتوں کے لئے یہ وقت غاصب کے پنجے مروڑنے کا ہے ورنہ موجودہ صورتحال پر خاموشی کا یہی مطلب نکالا جائے گا کہ صہیونیوں کے ناپاک منصوبے کو عرب حکومتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .