حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ صیہونی مذاکراتی ٹیم، ایک ہفتے کے اہم مذاکرات کے بعد قطر سے واپس لوٹ آئی ہے تاکہ حماس کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر داخلی مشاورت کی جا سکے۔
نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق، یہ ٹیم، جس میں موساد، شاباک (اسرائیل کی سیکیورٹی ایجنسی) اور اسرائیلی فوج کے اعلیٰ عہدیداران شامل ہیں، ایک ہفتے کی مشاورت کے بعد منگل کی رات اسرائیل واپس پہنچی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ٹیم داخلی مشاورت کے لیے لوٹی ہے تاکہ جنگ بندی مذاکرات اور اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی پر غور کیا جا سکے۔
قیدیوں کی صورتحال
رپورٹس کے مطابق، اسرائیل نے 10,300 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو قید کر رکھا ہے، جب کہ حماس کے زیر حراست تقریباً 100 اسرائیلی قیدی غزہ میں موجود ہیں۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں متعدد اسرائیلی قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔
مذاکرات کے نتائج اور پیش رفت
اسرائیلی اخبار "یدیعوت آحارونوت" نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اختلافات کم ہو رہے ہیں اور معاہدے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جنوبی اور وسطی غزہ میں کلیدی معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے، تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
حماس نے کئی بار معاہدے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور یہاں تک کہ مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن کی حمایت یافتہ تجویز پر رضامندی ظاہر کی۔ لیکن نیتن یاہو نے اس معاہدے سے پیچھے ہٹتے ہوئے فوجی کارروائی جاری رکھنے اور غزہ سے فوج واپس نہ بلانے کی شرائط رکھیں، جب کہ حماس مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی مکمل پسپائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔
نیتن یاہو پر تنقید اور داخلی دباؤ
نیتن یاہو پر اسرائیل میں تنقید بڑھ رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں اور قیدیوں کے اہل خانہ نے انہیں معاہدے میں تاخیر کا الزام دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے مذاکرات روک رہے ہیں۔
دوسری جانب، سخت گیر وزراء، جن میں ایتمار بن گویر اور بزلل سموتریچ شامل ہیں، نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیتن یاہو غزہ پر حملے روکنے پر رضامند ہوئے تو وہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔
آپ کا تبصرہ