حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ ممبئی کے امام جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احمد علی عابدی نے 27 دسمبر 2024 کو شیعہ خوجہ جامع مسجد ممبئی میں جمعہ کے خطبے میں نمازیوں کو تقوی الہی کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ہم دنیا میں بہت سی چیزیں تلاش کرتے ہیں لیکن وہ ہمیں نہیں ملتی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز جہاں ہوتی ہے وہیں ملتی ہے، جہاں پانی ہوگا وہاں کھدائی کریں گے تو پانی ملے گا لیکن جہاں پانی نہیں ہے وہاں پانی نہیں ملے گا۔ اللہ نے راحت کو جنت میں قرار دیا ہے اور ہم اسے دنیا میں ڈھونڈتے ہیں۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے حدیث قدسی "میں نے راحت و آرام جنت میں رکھا ہے اور لوگ اسے دنیا میں تلاش کرتے ہیں۔" کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: دنیا تو تکلیف کی جگہ ہے یہاں کوئی چیز بغیر تکلیف کے ملنے والی نہیں ہے، آپ ایک گلاس پانی پییں گے تب بھی آپ کو محنت کرنا پڑے گی، اٹھنا پڑے گا، جانا پڑے گا، لانا پڑے گا، پیسے دینا پڑیں گے، ٹیکس دینا پڑے گا تو جا کر ایک گلاس پانی پییں گے، جنت نہیں ہے کہ جہاں صرف ارادہ کریں اور پانی سامنے آ جائے۔ اسی طرح روٹی، بہترین کھانا جو کچھ بھی چاہیے اس کے لئے محنت کرنا پڑے گی، دنیا کی کوئی بھی چیز ہو اس میں جہاں ایک جانب سکون ہے وہیں دوسری جانب نقصانات بھی ہیں لیکن صرف جنت ہے کہ وہاں فائدہ ہی فائدہ ہے۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے مزید فرمایا: پوری دنیا کے چاروں طرف تکلیف ہی تکلیف ہے، آدمی دنیا میں آتا ہے تو تکلیف سے آتا ہے، بڑا ہوتا ہے تو تکلیفیں ہیں، محنت کرتا ہے تو تکلیفیں ہیں، دو لقمہ روٹی کے لئے صبح سے شام تک محنت کرے گا تب رزق حلال ملے گا۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: جیسے آج کل ہمارے نوجوان نہ پڑھیں گے نہ لکھیں گے نہ ہی محنت کریں گے امید لگائیں گے ان کو 56 کروڑ کی چوتھائی مل جائے، تو نہیں ملنے والی، رات میں سو کر، دن کو ضائع کر کے تو یہ چیزیں ملنے والی نہیں ہیں اور سب سے بہتر کام نوجوانوں کے لئے نوجوانی ہے، اگر آپ اس جوانی اور نوجوانی میں محنت کر لے گئے اور آپ اپنا وقت موبائل، چوراہوں، ہوتلوں سے بچا کر صحیح جگہ پر لگا دیا تو آپ ترقی کی منزلوں پر ہوں گے۔
مولانا احمد علی عابدی نے مزید فرمایا: بارہا آپ کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ مسلمان علاقوں میں جائیے تو آپ کو لائن سے ہوٹل ملیں گے اور یہ سارے ہوٹل دس گیارہ بجے کے بعد بڑھتے ہیں، اکثر مسلم علاقوں میں آپ کو ہوٹل کھانے کے ملیں گے اور یہ ہوٹل 10 بجے سے دو بجے رات تک کھلے رہتے ہیں۔ جسمیں نوجوان ہوتے ہوتے۔ جب کہ غیر مسلم علاقوں میں جائیے تو وہاں ایسا نہیں ملے گا۔ ان کے نوجوان وقت پر سو جاتے ہیں، صبح وقت پر اٹھ جاتے ہیں، وقت پر اسکول کالج چلے جاتے ہیں اور چونکہ فِرِش ہوتے ہیں تو جو کچھ پڑھایا جاتا ہے سمجھ میں آ جاتا ہے امتحان میں، کمپٹیشن میں پاس ہو جاتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں اور ہم اپنی قسمت کوستے ہیں کہ قسمت کی خرابی کی، تقدیر کی خرابی کی، حالات ہمارے خلاف ہیں، تعصب ہے، جانبداری ہے، لیکن ہم خود یہ نہیں سوچتے کہ اس میں ہم نے کوتاہی کہاں کی ہے۔
آپ کا تبصرہ