اتوار 29 دسمبر 2024 - 22:47
آیت اللہ محسن علی نجفیؒ ایک عہد ساز شخصیت

حوزہ/آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی ؒ ایک اچھے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک مُفسِّر، مترجم، محقق اور مؤلف تھے، بلکہ آپ کے وجود میں علم اور عمل دونوں کا حسین امتزاج موجود تھا؛ آپ کا وجود جس طرح سے ظاہری طور پر اعلیٰ صفات سے مزین تھا، معنوی طور پر اس سے کئی گنا زیادہ اعلیٰ صفات کے حامل تھا۔

تحریر: اشرف سراج گلتری

حوزہ نیوز ایجنسی |

تمہید

آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی ؒ ایک اچھے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک مُفسِّر، مترجم، محقق اور مؤلف تھے، بلکہ آپ کے وجود میں علم اور عمل دونوں کا حسین امتزاج موجود تھا؛ آپ کا وجود جس طرح سے ظاہری طور پر اعلیٰ صفات سے مزین تھا، معنوی طور پر اس سے کئی گنا زیادہ اعلیٰ صفات کے حامل تھا۔

آپ طلاب کو اللہ پرتوکل، اہل بیت علیہم السلام، مخصوصاً حضرت زہرا سلام اللہ علیہاسے مُتَوسّل ہونے کی زیادہ تلقین فرماتے تھے اور خودبھی توکل کے اعلی درجے پر فائزتھے اور اہل بیت علیہم السلام سےہمیشہ متوسل رہتےتھے۔

حسن اخلاق میں بھی آپ بےمثال تھے کہ جس شخص کوبھی آپ کی شاگردی یا قربت حاصل ہوتی تھی آپ کےعجزوانکساری،ہمدردی اور سبق آموز نصیحتوں کی وجہ سے خود بخود آپ کےدلدادہ بن جاتےتھے۔

اجتماعی اور ملکی مسائل میں ملت تشیع پاکستان کی تمام شخصیات،تنظیموں،انجمنوں اوراداروں کوملکی سطح کےاہم مسائل اورمعاملات پریکجاء کرنےکےلئےآپ کاوجود محورکی حیثیت رکھتاتھا۔

برصغیرپاک وہندمیں آپؒ کاشمار علمی اورملی شخصیات میں ہوتاتھاآپ کی شخصیت صرف ایک جہت سےنہیں بلکہ کہیں جہتوں سے جامع ترین شخصیت تھیں۔

آپ علمی لحاظ سےایک عظیم مرتبہ پر فائزہونے کےساتھ ساتھ ملت تشیع کی تعلیمی،اقتصادی،سیاسی مشکلات کے حل اور فلاح بہبودی کےلئے نہ صرف نظریہ رکھتے تھے بلکہ علمی طور پراقدام کرتے تھے۔

ہزاروں یتیموں،غریبوں، بیواوں اورسفید پوش افراد کی کفالت آپ اپنے ہی کاندھوں پراٹھائے ہوئے تھے جو آج بھی الحمداللہ علامہ شیخ انوری علی نجفی کےہاتھوں جاری وساری ہے۔

یہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ استاد محترم آیت اللہ محسن نجفی‌کےان اوصاف کو بیان کریں جوہم نے خود ان کےدروس،نصیحت آمیزگفتگواور ملاقاتوں سےاخذ کیاہےجوہمارےلیے ناقابل فراموش بھی ہیں۔

آپ کی علمی شخصیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا: ’’دنیا سے علم یوں اٹھایا جائے گا کہ اہل علم دنیا سے اٹھا لیے جائیں گے۔یقینااستادمحترم آیت اللہ محسن علی نجفی ؒ کی وفات اسی حدیث کی عملی شکل دکھائی دیتی ہے۔

بندہ حقیر کاعلوم قرآن اور تفسیرقرآن کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ناطے یہ بات بَبانْگِ دُہل کہہ سکتا ہوں کہ اردو زبان میں اب تک کےقرآن کریم کےکیے جانے والے تراجم اور تفاسیر میں سے علمی اور قابل فہم آپ ہی کاترجمہ اور تفسیرہیں۔

آپ کی علمی خدمات کےلئے یہی کافی ہےآپ کی علمی شخصیت اورآپ کی تفسیرپرجامعہ المصطفی ایران کے ایم اے(کارشناسی) اور ایمفل(ارشد) کے طلاب اب تک سینکڑوں تھسیز لکھ چکےہیں۔

آپ کی تفسیر میں وسعتِ نظری، بلند خیالی، نقطہ نگاہ میں گہرائی جیسی اوصاف کا جابجا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے،مخصوصا آپ کی تفسیر کامقدمہ علوم قرآن کےطلاب کےلئےنہایت مفیدہےآپ کی دیگر کتابیں اور ترجمے بھی محض ایک مکتب فکر کے نقطہ نگاہ کی نمائندہ نہیں بلکہ اسلامی عقائد کی توضیح واثبات،علم الکلام اوراسلامی فلسفے کا عظیم سرمایہ ہیں۔

لہذاضرورت اس امرکی ہے کہ آیت اللہ محسن علی نجفیؒ کی کتب پر مختلف جرائد میں تبصرے شائع کرائے جائیں تاکہ ان میں موجود علوم قرآن، علم الکلام ، فلسفہ اوراقتصادکا ایک عظیم ذخیرہ وسیع تربنیادپر منظرِ عام پر آجائے۔

خدا پر توکل

آیت اللہ محسن علی نجفی ؒ جب بھی درس اخلاق دیتےتھے طلاب کےلئے اللہ پر توکل کرنے کی زیادہ تلقین کرتےتھے اور قرآن مجید کی آیت وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ9 (اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے) کی تفسیر بیان کرکے اس کے ذیل میں طلاب کےلئے نصیحت آموز گفتگوفرماتے تھے:

مومن کو مخصوصا دینی طلاب، بالاخص ہمارے کوثر کےطلاب کو قرآن مجید کی اس آیت کو اپنےلئے معیار بناناچاہئے،جب آپ یہاں سے اٹھ کرمعاشرے میں جاتے ہیں تو آپ صرف طالب علم نہیں ہیں بلکہ عالم،فاضل اور اپنے گاوں یاعلاقےکےقائدہیں ،آپ اپنی حیثیت کوکم نہ سمجھے اور دوسروں کےآگے رزق کےلئے ہاتھ نہ پھیلائیں اس سے آپ کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔

آپ اپنے رزق کےامور کو اگراللہ پر چھوڑ دیں توآپ کے لیے اللہ کافی ہو گا کسی اورکے دروازے پر جانے کی ضرورت نہیں ہو گی اگر آپ رزق کےامورکو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے اور اللہ پر توکل نہیں کریں گے تو ہر دروازے پر جانا پڑے گا پھر بھی آپ کی زندگی کے امور حل نہیں ہوں گے کیونکہ اللہ کا وضع کردہ نظام علل و اسباب کا نظام ہے۔ یہ علل و اسباب انسان کی دسترس میں اس وقت آتے ہیں جب مسبب الاسباب پر بھروسہ کرے اور اگر انسان اپنی تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

آپ طلاب کےلئے تلقین فرماتے تھے کہ دعاکریں کہ اگر کوئی انسان تیرےرزق کوپہنچانے کےلئے ذریعہ ہے تو اللہ کےصالح بندوں کےہاتھوں سےآپ کارزق پہنچےاور کسی کم ظرف اورکم مائع انسان کےسامنے رزق کےلئےذلیل ہونے نہ دیں،آپ لوگ کوثر کےطلاب ہیں آپ کو کوئی پریشانی آتی ہے تو کسی اور سے مانگنے کےبجائےکوثرسے مانگے، اللہ نے آپ لوگوں کےلئے کوثرعطاکیاہےآپ کی علمی ،مالی مشکلات اللہ کی نصرت سے ہم حل کررہےہیں اور حل کریں گے لیکن معاشرے میں جاکر اپنی عزت کوخراب نہ کریں۔

حضرت زہرا ؑ سے والہانہ عقیدت

اہل بیت علیہم السلام سے والہانہ محبت اور عقیدت کاخاصہ مکتب تشیع کاہی خاصہ ہےلیکن بعض مومنین اور شخصیات کو اہل بیت علیہم السلام میں سے کسی ایک معصوم سے کچھ خاص عقیدت ہوتی ہے اور زیادہ تراسی معصوم سے ہی متوسل ہوکر فیض اورکرامات پاتےہیں۔

آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی ؒ اہل بیت علیہم السلام سے والہانہ عیقدت اور محبت رکھتےتھےآپ نے اپنے جتنے بھی ادارے اورپروجیکٹ بنائے ہیں ان میں سے اکثر کو اہل بیت علیہم السلام اورمعصوم ہستیوں سے ہی منسوب کیاہےجیسے جامعہ اہل بیتؑ،مدینہ اہل بیت،کلیہ اہل بیت،جامعہ الکوثر وغیرہ لیکن آپ رسول اللہ ﷺکی اکلوتی بیٹی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے خاص عقیدت رکھتے تھے اور طلاب کوانھیں سے متوسل ہونے کی تلقین بھی کرتےتھے۔

جامعہ الکوثر کی تعریف میں آپ کہتے تھے کہ مجھےجناب زہراسلام اللہ علیہاسے خاص عقیدت ہے اسی لئے ہم نےاس جامعہ کانام بھی کوثرہی رکھاہے۔ جب سے میں نے جناب زہراسلام اللہ علیہا کےنام پر اس کی بنیاد رکھی ہےاللہ تعالی نے میرے گرہ کوکھول دیاہے،اس کےفیض سے میں نےبہت سے امورکوانجام دیاہے۔

آپ سورہ کوثر کی تفسیر کےذیل میں فرماتےتھےکہ جس طرح حضرت زہراؑ ،رسول اللہ کےلئےخیرکثیرتھی اورآپ کی نسل سے رسول اللہ کےدشمن ابترہوئے تھےاسی طرح جناب زہرا سلام اللہ علیہاسے منسوب یہ جامعہ بھی ہمارےلئےخیرکثیرہے اور مکتب اہل بیت کےدشمن ابترہوئےہیں۔

یتیموں اور مسکنوں کے مداوا

سماج میں بہت سے لوگ معاشی حیثیت سے پچھڑے ہوئے ہیں۔کچھ لوگوں کو سماج میں ذات برداری کے نام پر نیچ اور حقیر سمجھتاجاتاہے (اسلام کی نظر میں ایسا سمجھنا گناہ ہے)۔ کچھ لوگ سماج میں باعزت ہوتے ہیں مگر اندر خانہ ٹوٹے ہوئے اور ضرورت مند ہوتے ہیں۔ وہ خود داری کی بنا پر اپنی ضرورتیں بھی لوگوں کے سامنے نہیں رکھ پاتے۔ بعض افراد اتنے لاچاراوربے بس ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنی ضرورت رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ سماج کے یہ تمام ضرورت مند اور لاچار ومجبور ہماری توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔قرآن پاک نے ایسے ضرورت مندوں کا ہمارے مال میں حق بتایا ہے:”وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاءِلِ وَالْمَحْرُوم“اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا۔(سورہ الذاریات آیت19)

"عبادت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سائل و محروم بن جائیں، بلکہ عبادت کے ساتھ انسان کو سائل نواز اور محروم نواز بھی ہونا چاہیے۔ یہ حق خمس و زکوٰۃ کے علاوہ ہے جس کا اہل تقویٰ التزام کرتے ہیں۔ یہ آیات مکی ہیں۔ مکہ میں زکوٰۃ ابھی واجب نہیں ہوئی تھی۔"( الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 381)

اس صدی کی شیعہ شخصیات میں جس ہستی نے یتیموں،مسکینوں اور طلاب کی مالی اور تعلیمی مشکلات کےحل کےلئے مناسب اور مفید اقدامات کیےہیں وہ ہستی آیت اللہ محسن علی نجفی ؒرحمہ اللہ کی ذات ہے۔آپ نے سکردو شہر میں مدینہ اہل بیت کالونی کے نام سے ایک ایسا ادارہ کھولاہے کہ جہاں سے اب تک ہزاروں یتیم،غریب،مسکین، بیوہ خواتین اور بےسہارہ افرادفائدہ اٹھارہےہیں۔

مدینہ اہل بیت کالونی میں رہنےکےلئے رہائشی مکان،گھریلو وسائل،بجلی،گیس،لکڑی ،دو وقت کی روٹی،اشیاء خوردنی حتی کبھی کبھارگوشت تک کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور دس سال کےعرصے تک اس محتاج شخص اور اس کی فیملی کووہاں پررکھاجاتاہے اوربچوں کے تمام دینی تربیت اور تعلیمی حتی لڑکے کی شادی اورلڑکیوں کےجہیز کےاخرجات تک بھی ادارے کی طرف سے ہی ادا کئے جاتےہیں۔

میں خود اپنے کئی رشتہ دار،کلاس فیلوز اور دیگر جاننے والے کودیکھ رہاہوں کہ جو پہلےیتیم ،غریب یاسفید پوش تھے جن کی کفالت مدینہ اہل بیت کالونی میں ہوتی رہی ہے آج وہ یتیم بچے اور ان مساکین کی اولاد،ملک کے بڑے بڑے اداروں میں اچھی نوکری پرہیں اورمالی طور پربھی مستغنی ہوگئےہیں۔

اس کے علاوہ زلزلہ زدگان ،سیلاب زدگان اوردیگر قدرتی آفات سے متاثرہونے والے افراد ، کئی طلاب ،علمااور مومنین ومومنات کےگھروں کی تعمیر، ان کی مالی مدد ،تعلیمی سکالرشب، شادی اور جہیز کےلئے تعاون بھی فرماتے تھے۔

آپ کی نصیحت آمیز گفتگو

آپ کے اندازِ گفتگو میں سادگی اور برجستگی تھی اسی لئےآپ کی ہربات سامع کےدل میں اتر جاتی تھی۔اللہ تعالیٰ نےآپ ؒ کو یہ صلاحیت عطا کررکھی تھی کہ سامنے والوں کی استعداداورمسئولیت کےمطابق بات کرتےتھےاسی لئے آپ کی نصیحت کااثرہوتاتھا۔اگرچہ ہم جامعہ الکوثرمیں پڑھتے تھےاور استاد محترم کے درس میں بھی جاتےتھے۔ان سےعلمی اور معنوی فیض بھی حاصل کرتےرہے۔ان کے روح پرور دروس کے دوران اکثر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی کہ گویا ہم اپنے اندر جھانک کراپنے گناہوں پرا پنے آپ کو ملامت کررہےہیں اور ا پنی عملی کوتاہیوں پر نگاہ ڈال رہےہیں اور اندر ہی اندر اللہ سے عہد کررہےہیں کہ ہم اپنی اصلاح کریں گےیوں آپ کے درس سے اٹھنے کے بعد ایک روحانی لطافت محسوس ہوتی تھی۔ مگرمیرے کانوں میں آپ کی وہ گفتگو اب بھی سنائی دے رہی ہے کہ جو 2023 میں محرم الحرام کی تبلیغ کےبعدجب آپ سےآخری ملاقات کاشرف حاصل ہواتو اس وقت آپ نے گفتگو فرمائی ۔

محرم الحرام کی تبلیغ کےبعد میں بلتستان سے اسلام آباد آیااور پانچ دن جامعہ الکوثر کےمہمانسرےمیں بیٹھنانصیب ہوا۔غالبا 22محرام الحرام کادن تھا میرے ساتھ گلگت اورنگر سے تعلق رکھنےوالے جامعہ الکوثرکےسابق طلاب جوحوزیہ علمیہ نجف میں پڑھتےہیں وہ بھی تھے، ہم سب آقامہدی کریمی صاحب کےساتھ شیخ صاحب سے ملاقات کرنےکےلئے جامعہ اہلبیت چلےگئے، جب ہم ادھرگئے تو بلتستان کےکچھ اور مبلغین بھی جامعہ اہلبیت میں پہنچے ہوئےتھے۔ہم کمرےمیں داخل ہوئےتو آپ نے تواضع کےساتھ سب کو سینے سے لگایا،پھر بیٹھنے کےبعد باری باری پوچھتے گئے کہ آپ کی پڑھائی ابھی کہاں تک پہنچی ہے؟کہاں پڑھ رہےہیں؟شعبہ کیالیاہے؟ اس کےبعد محرم الحرام میں کہاں کہاں تبلیغ کیں اور تبلیغ کی دیگر کیافعالتیں انجام دیں۔

اس کےبعد آپ نے تبلیغ کی اہمیت اورضرورت پر گفتگوشروع کیں اور ہم سب سے مخاطب ہوکر کہاکہ آپ لوگوں کو تبلیغ کےمیدان کوسنبھالناہوگا۔گلگت بلتستان میں اب تبلیغ کی زیادہ ضرورت ہے دشمن وہاں پر مختلف طریقوں سے کام کررہاہےوہ ہرمیدان میں مسلح ہوکرآیاہےہمیں بھی چاہیے کہ پہلے قم اورنجف میں ان موضوعات کوپڑھیں جو ہمارے معاشرے کی ضرورتوں کو پوری کرسکتے ہیں۔اور سورہ آل عمران کی آیت نمبر104 کی تلاوت کیں:(وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ)"اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔(سورہ آل عمران 104 )

اس کے ذیل میں اس کے کچھ تفسیری نکات کو بیان فرمایا، جن کا مفہوم کچھ اسی طرح کا تھا: "صحت مند معاشرہ تشکیل دینے کے لیے اسلام کے پاس نظامِ دعوت اور کلمۂ حق کہنے کا ایک فریضہ ہے۔ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے: تعمر الارض و ینتصف من الاعداء و یستقیم ۔ ”زمین کی آبادکاری، دشمنوں سے انتقام اور نظام کا استحکام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مضمر ہے۔“(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 134)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha