انتخاب و ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی
امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی پہلی خبر
اس سے قبل کہ نور حسینی شکم مادر میں مستقر ہوتا جناب جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: آپ کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کو آپ کے بعد آپ کی امت شہید کر دے گی، امامت ان کی نسل میں ہوگی۔ حضور نے اس مولود کی ولادت کی خبر امیر المومنین امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دی۔
(بحارالانوار: ج 23 ص 246، ج 25 ص 254، ج 36 ص 158، ج 43 ص 245، ج 44ص 231، 233، کمال الدین: ج 2 ص 415. اثبات الهداة: ج1 ص 275. عوامل العلوم: ج 17 ص 23. کامل الزیارات: ص 56. اثبات الوصیة: ص 174. کافی: ج 1 ص 464. علل الشرائع: ج 1 ص 206.)
جناب ام ایمن رضوان اللہ تعالی علیہا کا خواب
دن گذر رہے تھے کہ ایک دن جناب ام ایمن رضوان اللہ تعالی علیہا کے پڑوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کل رات ایمن گریہ کے سبب نہیں سو سکیں اور صبح تک انہوں نے گریہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کے ذریعہ ان کو بلوایا اور فرمایا: خداوند عالم تمہاری آنکھوں کو نہ رلائے، تمہارے پڑوسی میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ تم نے پوری رات گریہ کیا ہے۔ آخر تمہارے گریہ کا کیا سبب ہے؟ ام ایمن رضوان اللہ تعالی علیہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! رات ہم نے ایک خوفناک خواب دیکھا جس کے سبب پوری رات گریہ کیا، حضور نے فرمایا: اپنا خواب مجھ سے بیان کرو، کیونکہ خدا اور رسول تم سے زیادہ تمہارے خواب سے واقف ہیں. انہوں نے عرض کیا: خواب کا بیان کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ حضور نے فرمایا: تعبیر وہ نہیں جو تم نے خواب دیکھا ہے۔ ام ایمن رضوان اللہ تعالی علیہا نے بیان کیا: رات میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے بدن کا ایک حصہ میری آغوش میں آ گیا۔ حضور نے فرمایا: اے ام ایمن! عنقریب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جو تمہاری آغوش میں ہوگا، یہی وہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو تم نے خواب دیکھا ہے۔
(بحارالانوار: ج 43 ص 242، ج 58 ص 171. عوالم العلوم: ج 17 ص 22. مناقب شهر آشوب: ج 3 ص 183 ، 226. امالی صدوق: ج 2 ص 82. )
امام حسین علیہ السلام شکم مادر میں
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے فاطمہ! تمہارے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا کہ جس کی ولادت کی جبرائیل نے مجھے مبارکباد دی ہے۔ میں تمہارے چہرے میں نور درخشندہ مشاہدہ کر رہا ہوں، یہ دلیل ہے کہ تمہارے یہاں لوگوں پر اللہ کی حجت پیدا ہوگی۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ایام حمل کے سلسلہ میں فرمایا: حمل کے پہلے مہینے میں، میں نے اپنے بدن میں گرمی محسوس کی تو اپنے والد سے بتایا۔ تو آپ نے ایک کوزے میں پانی منگایا اور اس پر دعا پڑھی اور اپنا لعاب دہن اس میں ڈالا اور فرمایا اسے پی لو۔ میں نے اسے پیا تو بدن کی گرمی ختم ہو گئی۔ چھٹے مہینے سے ولادت کی شب تک کے حالات کو ام ابیہا نے اس طرح بیان کیا۔ چھٹے مہینے میں ہمیں رات میں چراغ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور جب میں مصلی پر بیٹھتی تو اپنے وجود سے مجھے تسبیح و تقدیس کی آواز سنائی دیتی، چھٹے مہینے کے ابتدائی 9 دن میں اپنے اندر میں نے زیادہ قوت محسوس کی اور اس بات کو جناب ام سلمی سے بتایا تو اس کے بعد وہ ہمارے ساتھ ہی رہتیں اور میری مدد کرتی تھیں۔ (ایک شب) میں اٹھی اور وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی، دوبارہ سو گئی تو خواب میں دیکھا کہ ایک سفید پوش شخص میرے سرہانے بیٹھا ہے، میرا چہرہ اور کمر نورانی ہے، خواب سے بیدار ہوئی اور چار رکعت نماز پڑھی دوبارہ سو گئی اس بار بھی کوئی آیا اور اس نے مجھے بٹھایا اور مجھے ایک حرز دیا اور میرے لئے دعا پڑھی۔ صبح بیدار ہوئی اور اپنے والد کے پاس گئی، آپ نے مجھ پر نظر کی، میں نے ان کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے اور ان سے اپنا خواب بیان کیا۔ میرے والد نے فرمایا: تمہیں بشارت ہو پہلے شخص عزرائیل تھے جو ارحام خواتین کے موکل ہیں، دوسرے میکائیل تھے جو ارحام اہل بیت کے موکل ہیں، کیا وہ تم پر ظاہر ہوئے؟ عرض کیا ہاں۔ میرے والد نے گریہ کیا، مجھے گلے لگایا اور فرمایا: تیسرے میرے حبیب جبرئیل تھے کہ خداوند عالم نے انہیں تمہارے بچوں کا خادم قرار دیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے دن جنت کی عظیم حور العین نازل ہوئیں اور انہوں نے نو مولود کو آب بہشتی سے غسل دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور لعاب دہن رسالت امام حسین علیہ السلام کی پہلی غذا قرار پائی۔
(امالی صدوق: ج1 ص136.عوالم العلوم: ج 17 ص 13، 20، 21، بحار الانوار: ج 43 ص 238-241، 243، 254، 271. اعلام الوری: ج 1 ص 427. الجواهر السنیة: ص 239. )
ولادت باسعادت سید الشہداء علیہ السلام
تاریخ آدم و عالم میں حضرت یحیی علیہ السلام کے بعد دوسری بار کوئی بچہ 6 ماہ کے حمل میں متولد ہوا وہ امام حسین علیہ السلام ہیں۔
3 شعبان المعظم سن 4 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی اور کائنات آپ کے نور سے منور ہوئی۔
(مدینة المعاجز: ج 3 ص426، 432. مجمع النورین: ص 159. کتاب الاربعین: ص 363، 368. حلیة الابرار: ج3 ص108. شجرة طوبی: ج 2 ص 258. بحار الانوار: ج 43 ص 248، ج44 ص 201، ج 56 ص 184.تنقیح المقال: ج 1 ص 186.غایة المرام: ج 1 ص 148، ج 1 ص 148، ج 2 ص 186،263. عوالم العلوم: ج 17 ص 13. کمال الدین ج1 ص 282. ناسخ التواریخ: ج 1 ص 6، ج 4 ص 628. لوامع الانوار: ص 80)
سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر جنت کو مزین کیا گیا اور جہنم کو خاموش کیا گیا۔
امام حسین علیہ السلام کی شب ولادت جنت میں ایک دھوم اور خوشی کا ماحول ہے، خداوند عالم نے دروغہ جہنم کو حکم دیا کہ جہنم کی آگ کو خاموش کر دے اور رضوان جنت کو وحی کی کہ جنت کو مزین اور معطر کرے، حورین کو وحی کی کہ خود کو آراستہ کریں، ملائکہ کو حکم دیا کہ صف با صف کھڑے ہو جائیں اور تسبیح و تحمید کریں۔
(شجرة طوبی: ج2 ص 258. بحار الانوار: ج 43 ص248، ج 44 ص 201، ج 56 ص 184 ناسخ التواریخ: ج 1 ص 6، ج 4 ص 628. لوامع الانوار: ص 80. مدینة المعاجز: ج 3 ص 426، 432. مجمع النورین: ص 159. عوالم العلوم: ج 17 ص 13. کمال الدین ج 1 ص 282 . تنقیح المقال: ج 1 ص 186. غایة المرام: ج1 ص 148، ج 2 ص 186، 263. کتاب الاربعین: ص 363، 368.حیلة الابرار: ج 3 ص 108.)
حور بہشتی، امام حسین علیہ السلام کی خادمہ
سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر خداوند عالم نے جنت کی سب سے عظیم اور خوبصورت حور "لعیا" کو حکم دیا: زمین پر نازل ہو، میرے حبیب محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی کے پاس جاؤ اور ان کی مونس و یاور بنو۔ "لعیا" نازل ہوئیں اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: مرحبا اے بنت محمد! آپ کیسی ہیں؟ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: میں ٹھیک ہوں۔ اسی وقت ایک بہشتی حور نازل ہوئی جن کے ہاتھ میں بہشتی مخمل کا کپڑا تھا، اس حور نے حجرے میں اسے بچھایا تو "لعیا" اس پر بیٹھی۔ جب امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی تو "لعیا" نے انہیں آب بہشتی سے غسل دیا، بہشتی کپڑے سے خشک کیا، چشم ہائے مبارک کا بوسہ لیا اور کہا: خداوند عالم آپ کی ولادت کو مبارک قرار دے اور آپ کے ماں باپ کو برکت عطا کرے۔
(بحارالانوار: ج 43 ص 248، ج 44 ص 201، ج 56 ص 184.لوامع النوار: ص 80. مدینة المعاجز: ج 3 ص 426، 432. مجمع النورین: ص 159. تنقیح المقال: ج 1 ص 186. غایة المرام: ج1 ص 148، ج2 ص 186 ،263. حلیة الابرار: ج 3 ص 108.)
طہارت مولود
حجرے کے باہر موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پھوپھی جناب صفیہ سے فرمایا: اے پھوپھی! میرے فرزند کو لے آئیے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابھی اسے غسل نہیں دیا ہے۔ حضور نے فرمایا: اے پھوپھی! آپ اسے پاک کرنا چاہتی ہیں جسے اللہ نے پاکیزہ اور مطہر قرار دیا ہے۔
(بحارالانوار:ج 43 ص 243، 256. عیون المعجزات: ص 55. عوالم العلوم: ص 12. امالی صدوق: ج 1 ص 136)
اذان و اقامت
جناب اسماء نو مولود کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر لائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، بچہ کو آغوش میں لیا اور گریہ فرمایا۔ جناب اسماء نے عرض کیا: ہمارے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں؟ فرمایا: اس بچہ کی مصیبت پر۔ جناب اسماء نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو ابھی پیدا ہوا ہے۔ حضور نے فرمایا: میرے بعد ایک طاغی اور سرکش گروہ اس کو شہید کرے گا میری شفاعت ان لوگوں کو نصیب نہیں ہوگی۔ اس کے بعد آغوش میں لئے ہوئے بچہ کو اس عالم میں چلنے لگے کہ بار بار اس کے لب و دندان کے بوسے لے رہے تھے اور پروردگار کی تسبیح و تہلیل اور تحمید فرما رہے تھے۔ اس کے بعد فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اس امت کا مہدی جس کی اقتدا میں عیسی ابن مریم نماز پڑھیں گے، مجھ سے ہے، مولود کے شانوں کو پکڑ کر فرمایا: مہدی اس فرزند کی نسل سے ہیں، اس فرزند کی نسل سے ہیں۔ اس کے بعد دست بہ دعا ہوئے : خدایا میں حسن و حسین (علیہما السلام) کے لئے وہی دعا کرتا ہوں جو جناب ابراہیم نے اپنی اولاد اور خاندان کے لئے کی تھی۔ خدایا! ان دونوں سے محبت فرما اور ان سے محبت کرنے والوں سے محبت فرما۔ اور جو بھی ان دونوں سے دشمنی کرے ان پر آسمان و زمین کے برابر لعنت فرما۔
(بحارالانوار:ج 43 ص 239، 240، 256، ج 101 ص 111.عیون اخبار رضا(ع) ج 2 ص 42.شرح الاخبار: ج 3 ص 89.اذکار النوویة:ص 286.عیون المعجزات: ص 55.عوالم المعلوم : ج 17 ص 20. اعلام الوری: ج1 ص 427. ذخائر العقبی: ص 119.احقاق الحق: ج11 ص 260، ج 19 ص 363، ج27 ص 62. فی رحاب محمد و اهل بیته(ع) ص 11)
پہلا قدم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان امام حسین علیہ السلام کے دہن مبارک میں رکھی کہ وہ اسے چوسنے لگے، ایسا لگتا تھا کہ جیسے حضور انہیں دودھ یا شہد پلا رہے ہوں۔ اس کے بعد فرمایا! مرحبا اے حسین، مرحبا اے حسین! خدا نے جو ارادہ کیا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ امامت تمہاری نسل میں ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کی پیشانی کا بوسہ لے کر انہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے حوالے کیا اور گریہ کرتے ہوئے 3 بار فرمایا: نور نظر! خدا اس قوم پر لعنت کرے جو تمہیں شہید کرے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: بابا جان! اسے کون شہید کرے گا؟ فرمایا: بنی امیہ کے باقی ماندہ سرکش و طاغی اسے شہید کریں گے، ان سب پر خدا کی لعنت ہو۔
(بحار الانوار: ج43 ص 238-241، 243، 254، 101 ص 111. اعلام الوری: ج1 ص 427. الجواهر السنیة: ص 239. امالی صدوق: ج 1 ص 136. المنتخب طریحی: ج 1 ص 163. عوالم العلوم: ج 17 ص 13، 20، 21. منتهی الامال: ج 1ص 206)
نام کا انتخاب
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا: ائے ابو الحسن! اس بچہ کا نام رکھیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: میں ہرگز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سبقت نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا تم نے بچے کا کوئی نام انتخاب کیا ہے؟ عرض کیا: میں ہرگز آپ پر سبقت نہیں کروں گا تو حضور نے فرمایا: میں بھی ہرگز خدا پر سبقت نہیں کروں گا۔ اسی وقت جناب جبرائیل نازل ہوئے اور عرض کیا: اللہ نے آپ کو درود و سلام کہلایا ہے۔ یا رسول اللہ! علی (علیہ السلام) کو آپ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ لہذا مولود کا وہی نام رکھیں جو ہارون کے فرزند کا نام تھا۔ حضور نے فرمایا: ہارون کے فرزند کا کیا نام تھا میری زبان عربی ہے۔ جناب جبرائیل نے عرض کیا: اس کا نام "حسین" رکھ دیں۔
(بحارالانوار: ج 43 ص 238- 241، ج 101 ص 111. عوالم العلوم: ج 17 ص 20. الخصائص الفاطمیة: ج 2 ص 612. اعلام الوری ج 1 ص 427. الجواهر السنیة: ص 239)
خون آلود تربت
امام حسین علیہ السلام کی شب ولادت ایک ملک نے آسمان و زمین میں ندا دی۔ اے اللہ کے بندو! حزن و اندوہ کا لباس پہن لو، سوگوار ہو جاؤ، آہ و نالہ کرو، کیونکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسہ کو شہید کیا جائے گا اور وہ مظلوم و مقہور ہوں گے۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے حبیب خدا! آپ کی امت کے کچھ ظالم و طاغی اور فاسق آپ کے بیٹوں کو شہید کریں گے، وہ آپ کی بیٹی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے بیٹے حسین (علیہ السلام) کو کربلا نامی سرزمین پر شہید کریں گے۔ اس کے بعد اس نے ایک مشت خاک کربلا حاضر کی اور عرض کیا: یہ اس کی تربت ہے، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اس تربت کو اپنے پاس رکھیں اور جب اس میں تبدیلی دیکھیں اور یہ خون کی طرح سرخ ہو جائے تو جان لیں کہ آپ کے فرزند حسین (علیہ السلام) شہید ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ ملک امام حسین علیہ السلام کی تربت میں سے تھوڑی سی خاک آسمان پر لے گیا جسے تمام آسمان کے ملائکہ نے سونگھا اور خود کو متبرک کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تربت کو ہاتھ میں لیا، سونگھا، بوسہ لیا اور فرمایا: اے حسین (علیہ السلام)! خدا تمہارے قاتلوں پر لعنت کرے اور انہیں جہنم میں ڈال دے، خدایا! قاتل حسین (علیہ السلام) کی نسل میں کسی مبارک انسان کو قرار نہ دے، ان سب کو جہنم میں ڈال دے اور ان کے انجام کو بدترین قرار دے۔ حضور نے تربت کربلا کو اپنی زوجہ ام المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ تعالی عنہا کو دیا اور فرمایا: اے ام سلمی! یہ تربت اپنے پاس رکھو، میرے بعد اس کی حفاظت کرو، جب اس میں تبدیلی پاؤ اور یہ خون کی طرح سرخ ہو جائے تو سمجھ جانا کہ میرا فرزند حسین (علیہ السلام) کربلا میں شہید ہو گیا۔
(مدینة المعاجز: ج 3 ص 438. کتاب الفتوح: ج 4 ص 323 )
امام حسین علیہ السلام کے لئے آسمانی غذا
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے دن سے 40 دن تک ہر صبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لاتے اور اپنے ہاتھ کا انگوٹھا امام حسین علیہ السلام کے دہن میں رکھتے جسے وہ چوستے۔ خداوند عالم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگشت میں امام حسین علیہ السلام کا رزق رکھا تھا اور اس طرح امام حسین علیہ السلام کا گوشت و پوست اور ہڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون سے پروان چڑھی۔
(المنتخب طریحی: ج 1 ص 163. بحارالانوار: ج 43 ص 238-241، 243، 254،101 ص 111. اعلان الوری: ج1 ص 427. الجواهر السنیة: ص 239. عوالم العلوم: ج 17 ص 13، 20، 21. امالی صدوق: ج 1 ص 136)
یوم ولادت امام حسین علیہ السلام ملائکہ کی مبارکباد
یہی وہ موقع ہے کہ ملائکہ مبارکباد کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نازل ہوں اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مبارک باد پیش کریں۔ لہذا خداوند عالم نے جناب جبرائیل امین کو وحی کی کہ ہزار ملائکہ کے ساتھ رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں۔ گروہ ملائکہ کے ساتھ "روحانیون" نامی دوسرے ملائکہ بھی اپنے ہاتھوں میں نورانی مشعلیں لئے مبارکباد کے لئے حاضر ہوئے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے نواسہ کی ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کریں۔ خداوند عالم نے جبرائیل امین کو حکم دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبارک باد پیش کریں نیز اس مولود کی شہادت کی تعزیت بھی پیش کریں اور کہیں: اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اسے آپ کی امت کے شریر لوگ شہید کریں گے، اس کے قاتلوں پر وائے ہو، جو لوگ اس کے خلاف جنگ میں رہنمائی کریں ان پر وائے ہو، جو لوگ اس کے خلاف لشکر میں شریک ہو ان پر وائے ہو، میں قاتل حسین (علیہ السلام) سے بیزار ہوں اور وہ مجھ سے بھی دور ہیں۔ روز قیامت سب سے بڑے گناہ گار قاتلان حسین (علیہ السلام) ہوں گے، حسین (علیہ السلام) کے قاتل قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ محشور ہوں گے جنہوں نے شرک کیا ہے، آتش جہنم حسین (علیہ السلام) کے قاتلوں کی اس سے زیادہ بے تاب ہے جتنا جنت اللہ کے اطاعت گذار بندوں کی مشتاق ہے۔
(غایة المرام: ج 2 ص 186، 263. کتاب الاربعین: ص 3636. عوالم العلوم: ج 17 ص 13. مدینة المعاجز: ج 3 ص 432. بحارالانوار:ج 43 ص 248، ج 56 ص 184. کمال الدین ج 1 ص 282)
جناب جبرائیل نے مبارکباد پیش کی
حکم خدا کے مطابق جناب جبرائیل نے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مبارکباد پیش کی اور اس کے بعد تعزیت پیش کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا میری امت کے لوگ اسے شہید کریں گے؟ جناب جبرائیل نے عرض کیا ہاں تو حضور نے فرمایا: وہ ہماری امت میں شمار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ میں ان سے بیزار ہوں اور خداوند عالم بھی ان سے بیزار ہے۔ جناب جبرائیل نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بھی ان سے بیزار ہوں۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس گئے اور انہیں تہنیت و تعزیت پیش کرنے کے بعد امام حسین علیہ السلام کی خبر شہادت سنائی۔ اپنے والد کی بات سن کر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے گریہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسین علیہ السلام اس وقت تک شہید نہ ہوں گے جب تک کہ ان کے ہاں امام (امام زین العابدین علیہ السلام) نہ پیدا ہو جائیں۔ امامت نسل حسین (علیہ السلام) میں ہوگی۔ میرے بعد ائمہ ہدی ان کی نسل میں آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(غایة المرام: ج1ص 148، ج2 ص 186، 263. کتاب الاربعین:ص 363. عوالم العلوم: ج 17 ص 13. مدینة المعاجز: ج 3 ص 432. بحارالانوار:ج 43 ص 248، ج 56ص 184. کمال الدین ج 1 ص 282)
آپ کا تبصرہ