تحریر: سید جمال موسوی، کرگلی
حوزہ نیوز ایجنسی| سب نے خوشی سے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی ولادت کا جشن منایا، لیکن کیا ہم نے واقعی امام کو اپنی زندگی میں پہچانا ہے؟ کیا صرف عیدی دینا اور چند دن کے لیے جشن میں شرکت کرنا ہی کافی ہے؟ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کتنے لوگ اور کتنے ممالک امام کے تعجیلِ ظہور کے منتظر ہیں۔ اگر جوانان قلم اٹھائیں اور عوام تک حق و حقیقت کا پیغام پہنچائیں تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔
مرحوم شیخ صدوق (رحمت اللہ علیہ) اپنی معزز کتاب کمال الدین و تمام النعمة میں لکھتے ہیں:"ابو محمد حسن بن علی (علیہما السلام) سے، جب میں ان کے پاس موجود تھا، اس روایت کے بارے میں پوچھا گیا جو ان کے آباء (علیہم السلام) سے نقل کی گئی ہے:‘زمین قیامت کے دن تک اللہ کی حجت سے خالی نہیں رہے گی، اور جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
تو امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ بات برحق ہے، جیسے دن کی روشنی برحق ہے۔ پھر ان سے پوچھا گیا: 'اے فرزندِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آپ کے بعد حجت اور امام کون ہوگا؟تو امام نے فرمایا: میرا بیٹا محمد، وہی میرے بعد امام اور حجت ہوگا، اور جو شخص اسے پہچانے بغیر مرے گا، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
اسی طرح ابن حمزہ طوسی (رضوان اللہ تعالی علیہ) اپنی کتاب الثاقب فی المناقب میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:"محمد بن علاء الجرجانی کہتے ہیں: میں حج کے دوران تھا، تو میں نے امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔ میں نے ان سے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، کیا یہ حدیث نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہوئی ہے کہ:جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مرے، وہ جاہلیت کی موت مرے گا؟’
امام نے فرمایا: 'ہاں، میرے والد نے میرے جد امجد سے، اور انہوں نے حسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) سے نقل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
محمد بن علاء نے پوچھا: 'میں آپ پر قربان جاؤں، جاہلیت کی موت سے کیا مراد ہے؟'
تو امام نے فرمایا: 'اس کا مطلب ہے کہ وہ مشرک مرا ہے۔’"
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری ذمہ داری صرف جشن منانا نہیں، بلکہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی معرفت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ معرفت انسان کے دل میں یقین پیدا کرتی ہے، اور یقین عملی اقدام کی طرف لے جاتا ہے۔
ہماری عملی ذمہ داریاں
ہم میں سے اکثر حقیقی ذمہ داریوں سے آگاہ کیوں نہیں ہو پاتے؟ اس کی چند وجوہات ہیں۔1
حد سے زیادہ مادی پرستی – ہم دنیاوی چیزوں میں اس قدر مشغول ہو چکے ہیں کہ معنوی پہلو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
2.
امام کی شناخت کے لیے تحقیق میں کمی – ہم نے امام کے بارے میں جاننے اور پہچاننے کی کوشش کو محدود کر دیا ہے۔
3.
نظریاتی اختلافات میں الجھاؤ – ہم بحث و مباحثے میں اتنے محو ہو گئے ہیں کہ عملی میدان میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ امام کو پہچانے بغیر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ امام کو جانتے ہیں، جبکہ حقیقت میں معرفتِ امام سے کوسوں دور ہیں۔ دین کے نام پر فرقہ واریت اور ولایت کی حقیقت سے ناواقفیت نے ہمیں امام کے راستے پر چلنے سے روک دیا ہے۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
میں جوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی شناخت کے لیے کم از کم ہفتے میں ایک کلاس رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کریں اور دنیا تک یہ پیغام پہنچائیں کہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کتنے مہربان ہیں اور وہ ظلم و جور کو کس طرح ختم کریں گے۔
اگر باشعور جوان عملی میدان میں آگئے تو دنیا کا نقشہ بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، کیونکہ "جاء الحق و ذھق الباطل، ان الباطل کان زھوقا"۔
جوانانِ ملت کو کیا کرنا چاہیے؟
قرآن پر حقیقی ایمان لانے کی ضرورت ہے۔
اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔
امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کو اپنی زندگی کا مرکز بنانا ہوگا۔
ہر مشکل اور پریشانی میں پہلے خدا اور امام کو پکارنے کی عادت ڈالنی ہوگی، نہ کہ رشوت یا دنیاوی چالاکیوں کا سہارا لینا۔
کیا اسی دور میں امام کا ظہور ممکن ہے؟
یہ سوال ہر ذہن میں آتا ہے، لیکن ہمیں پہلے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینی ہوگی۔ سب سے پہلا قدم اپنے تمدن کو قرآنی تمدن بنانے کی کوشش کرنا جس کا دوسرا تعبیر تمدین نوین کی طرف جامعہ کو آمادہ کرنا۔ جب معاشرہ قرآن کی طرف بڑھے گا تو ہمیں حقیقی مفسرِ قرآن (یعنی امام زمانہ) کی ضرورت محسوس ہوگی، اور ہم ان کے پیچھے چلنے کے قابل ہوں گے۔
جب ہمارے اندر بیداری پیدا ہوگی، تب ہم اخلاص کے ساتھ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کو پکار سکیں گے اور ان کے ظہور کے لیے زمینہ ہموار کر سکیں گے۔
آخر میں دعا ہے کہ خداوندِ متعال ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں امام کے ظہور کے لیے تیاری کرنے کی توفیق دے۔
والسّلام
آپ کا تبصرہ