حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم: ہفتہ معلم کی مناسبت سے جامعه الزهرا(س) کے ذیلی ادارے "مرکزِ تحقیقاتِ اسلامی" کی سربراہ ڈاکٹر زہرہ شریعت ناصری نے کہا ہے کہ معلم کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شاگرد کے ذہن کو بارور بنائے، نہ کہ صرف معلومات منتقل کرے۔
انہوں نے حوزہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معلم، انبیاء کے پیغام کا امین اور رہرو ہوتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے لوگوں کو راہ دکھائی اور کبھی خود ان کے پاس جا کر رہنمائی کی۔ معلم کو بھی چاہیے کہ صرف جواب نہ دے بلکہ شاگرد کو سوال کرنے پر آمادہ کرے اور اس کی رہنمائی کرے تاکہ وہ خود سوچ کر جواب تک پہنچے۔
انہوں نے زور دیا کہ موجودہ تعلیمی نظام میں اکثر اساتید شاگرد کو محض حوالہ جات دے کر مطمئن کر دیتے ہیں، جو بظاہر مفید لگتا ہے لیکن درحقیقت طلبہ کے ذوقِ تحقیق اور شوقِ جستجو کو ختم کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر شریعت ناصری نے کہا کہ "تشنگی پیدا کرنا، سیراب کرنے سے مقدم ہے"۔ اگر معلم فوراً جواب دے دے تو طالب علم کے اندر سے سوچنے اور تلاش کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔
انہوں نے معلم کی کامیابی کی نشانی یہ قرار دی کہ وہ طلبہ کے اندر سیکھنے کا شوق پیدا کرے، چاہے وہ محدود مواد ہی کیوں نہ پڑھائے، لیکن اس کا اثر دیرپا ہونا چاہیے۔
حوزہ اور یونیورسٹی کے اساتید میں فرق؟
اس سوال پر انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر استاد استاد ہے، چاہے وہ حوزہ میں ہو یا یونیورسٹی میں۔ اصل چیز "علم، روش اور منش" ہے۔ اگر استاد خود مطالعہ نہ کرے یا طلبہ کو کم سمجھے تو وہ خود بھی کمزور ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حوزہ اور یونیورسٹی کے تعلیمی نظام مختلف ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اساتید کے معیار الگ ہوں۔ البتہ حوزہ میں استاد اور شاگرد کا تعلق روحانی اور پدرانہ ہوتا ہے، جیسا کہ روایات میں استاد کو "پدر روحانی" کہا گیا ہے۔
تعلیمی نظام میں اصلاح کی ضرورت
ڈاکٹر ناصری نے کہا کہ تعلیم کے ساتھ تربیت اور تحقیق کا ربط بھی ضروری ہے۔ صرف تعلیم کافی نہیں، بلکہ تحقیق اور تزکیہ بھی اس کے ساتھ ہونا چاہیے۔ خوش قسمتی سے حوزہ علمیہ میں ان تینوں پہلوؤں پر توجہ دی جا رہی ہے، اگرچہ کچھ کمزوریاں بھی موجود ہیں۔
کامیاب استاد کی صفات
انہوں نے کہا کہ کامیاب استاد وہ ہے جو اپنے علم کی بنیاد پر سبق دے، طلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق مواد پیش کرے، اور مسلسل مطالعہ کرتا رہے۔ صرف یاد کر کے سبق پڑھانا کافی نہیں۔ جیسا کہ شہید مطہری فرماتے ہیں: "سمجھدار انسان حافظہ کو استعمال کرتا ہے، جبکہ کم فہم انسان اسے صرف انبار سمجھتا ہے"۔
آخر میں انہوں نے کہا: اللہ رحم کرے ایسے استاد پر جو معلمی کے مقام کو سمجھے اور اپنی ذمہ داری کو اخلاص کے ساتھ نبھائے۔









آپ کا تبصرہ