تحریر: عباس رضا
حوزہ نیوز ایجنسی I یہ کیسا سوال ہے جو ہر رات بستر پر کروٹیں بدلتے انسان کے ذہن میں ابھرتا ہے؟
آخر رزق کہاں رک گیا؟ کیوں محنت کے باوجود ہاتھ خالی ہیں؟
کیوں دعائیں بھی سنی جاتی ہیں، مگر زندگی میں وسعت نہیں آتی؟
کیا ہم آزمایے جا رہے ہیں؟ یا کہیں ہم ہی نے رزق کے بہاؤ کو روک رکھا ہے؟
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ رزق صرف پیسے کا نام ہے۔ حالانکہ رزق تو وہ سکون بھی ہے جو بے فکری میں چھپا ہوتا ہے، وہ قناعت بھی ہے جو سینے کو وسعت دیتی ہے، وہ عزت بھی ہے جو لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے اور وہ راحت بھی ہے جو بے سروسامانی میں بھی قلب کو مطمئن رکھتی ہے۔
آج کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ رزق کو صرف ظاہری اسباب سے جوڑتا ہے۔ ڈگری، نوکری، کاروبار، تعلقات یہ سب اہم ہیں، مگر یہ وسیلے ہیں، ذریعہ نہیں۔ اصل ذریعہ تو وہ رب ہے جو کن کہے اور ہو جائے۔ مگر ہم اسی کو بھول بیٹھے ہیں۔ ہم نے اسباب کو عبادت بنا لیا ہے، اور خالق اسباب کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
"ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب"
جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
تو کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ شاید ہمارا رزق ہمارے کردار کی کوتاہیوں میں رک گیا ہو؟
ہمارے دل کی سختی میں، ہمارے رشتوں کی بے رحمی میں،ہمارے ہاتھوں کی بے برکتی میں، یا ہماری زبان کی بے ادبی میں؟
کیا ہم نے کبھی رزق کے روحانی اسباب پر غور کیا ہے؟
کیا ہم نے کبھی سچ بولنے کو، صلہ رحمی کو، حلال روزی کے لیے جدوجہد کو، اور خمس و زکات کی ادائیگی کو رزق کی کنجی سمجھا ہے؟ یا ہم اب بھی صرف انٹرنیٹ پر "جلدی مالدار بننے کے طریقے" تلاش کرتے پھرتے ہیں؟
رزق وہاں بھی رک جاتا ہے جہاں نیت میں کھوٹ آ جائے، جہاں کسی کا حق دبا لیا جائے، جہاں والدین کی ناراضگی ہو،جہاں ہم رب کو بھول کر دنیا کے پیچھے دوڑنے لگیں۔ رزق وہ بھی ہے جو علم کی صورت میں عطا ہو، جو دل کی صفائی میں جھلکے، جو تعلقات میں وفا بن کر ظاہر ہو۔ اہل بیت علیہم السلام کی دعاؤں میں رزق صرف مالی آسائش کا نام نہیں، بلکہ دل کی صفا، روح کی بینائی، وقت کی برکت، اور رب سے قربت کو اصل رزق مانا گیا ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: "اللهم ارزقني توفيق الطاعة، وبعد المعصية، وصدق النية"
یعنی رزق صرف کھانے، پہننے اور جمع کرنے کی چیز نہیں،
بلکہ نیت کی سچائی، طاعت کی توفیق، اور معصیت سے دوری بھی ایک رزق ہے۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ شاید رزق اس لیے رکا ہوا ہے کہ اللہ چاہتا ہے ہم لوٹ آئیں،نہ صرف ہاتھوں سے، بلکہ دل سے، نیت سے، سجدوں سے۔کاش ہم رزق کی حقیقت کو سمجھیں۔کاش ہم صرف مال کے لیے نہیں، حال کے لیے بھی دعا مانگیں۔
کاش ہم صرف کمائی کے لیے نہیں، کمائی کی برکت کے لیے بھی جئیں۔تب جا کر وہ وقت آئے گا کہ ہمارے دروازے پہ وہ کشادگی خود چل کر آئے گی۔جسے ہم برسوں سے پکار رہے تھے۔









آپ کا تبصرہ