ہند و ایران: دو گھر، ایک تہذیبی آنگن

حوزہ/ اگر ایشیا کے قلب پر کان رکھا جائے تو دو دھڑکنیں صاف سنائی دیتی ہیں—ایران اور ہندوستان۔ ایک کی سانسوں میں فارسی کی مٹھاس گھلی ہے، تو دوسرے کی روح سنسکرت کی سرگم پر رقصاں ہے؛ لیکن دونوں کی تال ایک ہے: انسان دوستی، علم پرستی اور جمال آفرینی۔ کوہِ البرز سے گنگا تک تاریخ کی ہر آندھی نے ان دیاروں کو جدا کرنے کے بجائے اور قریب کیا ہے۔

تحریر : مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| اگر ایشیا کے قلب پر کان رکھا جائے تو دو دھڑکنیں صاف سنائی دیتی ہیں—ایران اور ہندوستان۔ ایک کی سانسوں میں فارسی کی مٹھاس گھلی ہے، تو دوسرے کی روح سنسکرت کی سرگم پر رقصاں ہے؛ لیکن دونوں کی تال ایک ہے: انسان دوستی، علم پرستی اور جمال آفرینی۔ کوہِ البرز سے گنگا تک تاریخ کی ہر آندھی نے ان دیاروں کو جدا کرنے کے بجائے اور قریب کیا ہے۔

باستانی رشتوں کی خوشبو

آریائی لہجوں کی قرابت ہو یا اوستائی اور ویدی مناجات کا سنگم، قدیم دنیا کے کچے راستے ان دونوں ملکوں کے بیچ روحانی قافلے بن کر چلتے رہے۔ تختِ جمشید کے ستونوں سے لے کر ٹیکسلا کے اسٹوپے تک ایک ہی تمدنی شجر کی شاخیں لہلہاتی دکھائی دیتی ہیں۔

تہذیبوں کا سنگم: فارسی خوشبو، گنگا کی موج

سلجوقی و غزنوی کارواں جب علم و فن کے قافلے بن کر آئے، تو ساتھ ہی فارسی تہذیب کی خوشبو بھی پورے برِصغیر میں یوں بکھر گئی جیسے سعدی کی نکہت دہلی کی فضاؤں میں گھل گئی ہو، اور ہر کوچہ گویا گلستانِ شیراز کا ایک ورق بن گیا ہو۔”

لکھنؤ کے آبگینوں میں حافظ کا عکس جھلکا، آگرہ کے دریچوں میں خیام کی رباعیاتی چراغ روشن ہوئے، اور کاشی کے گھاٹوں پر کبیر کے دوہوں میں رومی کا سرور رس گھولنے لگا۔ اکبر کا دربار، دارا شکوہ کی مجلس، شاہجہاں کا تاج محل اور خسرو کی قوالی—ہر اینٹ، ہر محراب میں تہران کی سانس سنائی دیتی ہے۔ بیدل، غالب، اقبال، امیر خسرو، کبیر، تلسی داس اور رام موہن رائے اسی شعری و فکری کہکشاں کے ستارے ہیں۔

وحدتِ ادیان: دارا شکوہ، اوستا اور گیتا کی ہم زبانی

شہزادہ دارا شکوہ نے مجمع البحرین لکھ کر ویدانت اور اسلامی تصوف کو ایک ہی چشمے سے جوڑ دیا۔ اس کی نظر میں وید، اوستا اور قرآن ایک ہی سرچشمے سے نکلنے والی ندیاں تھیں۔ یہی نور شیخ ابو سعید ابوالخیر کی خانقاہ میں بھی جھلکا اور کاشی کے دوہؤں میں بھی۔ یہ نور نہ مسجد کا تھا نہ مندر کا—یہ دل کا، عشق کا اور انسانیت کا تھا۔

استعمار کے خلاف مہاتما گاندھی کا عدمِ تشدد اور امام خمینیؒ کا انقلابی عزم

اٹھارویں صدی کے اختتام پر تاجِ برطانیہ نے دہلی کے قلعے پر سایہ پھیلایا، جبکہ ایران پر روسی دباؤ اور انگریزوں کی دسیسہ کاری نے قاجاری تخت کو متزلزل کیا۔ اسی تاریکی میں موہن داس کرم چند گاندھی نے اہِنسا کا چراغ جلایا، جسے تہران کے اخبارات نے “صلحِ اکبر” کہا۔ دوسری جانب امام خمینیؒ نے “لا شرقیہ، لا غربیہ، جمہوریہ اسلامیہ” کا نعرہ بلند کر کے شاہی استبداد اور عالمی استعمار کو چیلنج کیا۔ راستے مختلف، مگر منزل ایک تھی: آزادی، خودداری اور ظلم سے نجات۔

دوستی کے قافلے: نہرو سے رئیسی تک

پنڈت جواہر لعل نہرو فارسی دانی اور تہذیب شناسائی کے باعث ایران کو محض ایک ملک نہیں، روحانی دوست سمجھتے تھے۔ راجیو گاندھی نے انقلابِ اسلامی کے بعد تہران کا دورہ کر کے رشتے کو نئی زندگی دی۔ اٹل بہاری واجپائی نے “Look West” کی بنیاد رکھی، ڈاکٹر منموہن سنگھ نے توانائی و ٹرانسپورٹ کی شراکت بڑھائی، اور آج نریندر مودی چابہار کی ترقی کو دونوں ملکوں کا مشترکہ سنگِ میل بتاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں شہید صدرِ جمہوریہ ابراہیم رئیسی نے اعلان کیا:

“ہمارا دل دہلی کے لال قلعے سے لے کر قُم کے مدرسے تک ایک ہی دھڑکن رکھتا ہے۔”

صحافت، مطبوعات اور فکری قافلے

کلکتہ کے چھاپہ خانے سے فارسی رسائل نکلے، تو تبریز کے کاتب دہلی کے دستخط ڈھونڈنے لگے۔ وقایعِ اتفاقیہ بمبئی سے چھپی، گلستان و بوستان لاہور و لکھنؤ میں نئے حُلیے میں شائع ہوئیں۔ علی اصغر حکمت، مولانا حسین آزاد، علامہ شبلی اور جواہر لعل نہرو تک—ہر دانشور نے اس ورق گردانی میں اپنا عنوان جوڑا۔

مزاحمت و شجاعت: شہید جنرل قاسم سلیمانی

۲۰۱۴ء میں جب داعش نے درجنوں ہندوستانی نرسوں کو یرغمال بنایا، تو شہید جنرل قاسم سلیمانی نے قدس فورس کی قیادت کرتے ہوئے انہیں بحفاظت رہائی دلوائی۔ دہلی ایئرپورٹ پر نرسوں کے خوشی کے آنسو اور ماؤں کی شھید قاسم سلیمانی کا شکریہ اور دعائیں اس ابدی بھائی چارے کی تازہ ترین شہادت بنیں۔

عصرِ حاضر: سفارت سے ثقافت تک

انقلابِ اسلامی کی فکری بنیاد امام خمینیؒ کی قیادت تھی، اور علامہ اقبال کی شاعری نے اس راستے کو معنوی روشنی بخشی۔ آج تہران یونیورسٹی میں “بیدل شناسی” اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں “مطالعۂ ایران” مراکزِ تحقیق ہیں۔ فلم، موسیقی، قالین، آیور وید اور طبِ یونانی—ہر راستے پر دوستی کے دیے روشن ہیں۔

عزاداری: ایک مشترکہ روحانی ورثہ

ایران و ہندوستان کے دلوں کو جوڑنے والی ایک قدیم کڑی عزاداریِ امام حسینؑ بھی ہے۔ صفوی ایران میں عزاداری ایک منظم قومی عمل بنی اور لکھنؤ، حیدرآباد اور دکن سے پھیلتی برصغیر کی روایت سے جڑ گئی۔ آصف الدولہ کے دور میں لکھنؤ عزاداری کا مرکز بنا تو تہران میں مقتل خوانی نے فکری تحریک کی شکل اختیار کی۔ تعزیے، امام باڑے، سوز و نوحہ، نذر و نیاز اور جلوس ہائے عزا—یہ سب ایک ثقافتی پل بن گئے۔ میر انیسؔ اور دبیرؔ کی مراثی آج بھی ایرانی ذاکروں کی زبان پر زندہ ہیں، جبکہ ایران کے نوحے ہندوستانی مجالس میں جذب و شوق سے گونجتے ہیں۔

اس مشترکہ ورثے کی ایک حیران کن جھلک ہندوستان کے ہندو راجہ مہاراجاؤں کی عزاداری میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ بنارس، آگرہ، جھانسی، میسور، کولکتہ، الور اور گوالیار کے متعدد ہندو راجاؤں نے محرم کے جلوسوں میں شرکت کی، بعض نے امام باڑے تعمیر کروائے، تعزیے نکلوائے، اور نوحہ خوانی کی مجالس میں دل سے حصہ لیا۔ راجہ رائے سنگھ، راجہ چیت سنگھ، اور راجہ گجندر پرشاد جیسے کئی حکمرانوں نے امام حسینؑ کو مظلومیت، عدل اور سچائی کا استعارہ مان کر ان کے غم میں شریک ہونا اپنا افتخار سمجھا۔

برہمن علما کی قیادت میں تعزیے اٹھانے، اشوک ون میں تعزیہ دفنانے، اور بعض علاقوں میں “پیر صاحب” کے نام سے عزاداری منانے کے کئی مستند شواہد موجود ہیں۔ یہ مظاہر نہ صرف بین المذاہب احترام کا اظہار تھے بلکہ امام حسینؑ کے آفاقی پیغامِ انسانیت کی سچّی گواہی بھی۔

کربلا کا یہ درد دونوں تہذیبوں کا مشترکہ روحانی اثاثہ ہے، جو ہر زمانے میں ظلم کے خلاف بغاوت، مظلوم کی حمایت اور روح کی پاکیزگی کا پیغام بن کر ابھرتا ہے—چاہے وہ شیعہ ہو یا سنی، ہندو ہو یا پارسی، سنسکرت میں بولے یا فارسی میں لکھے، دل اگر سچ کے ساتھ ہو، تو حسینؑ کا نوحہ بن جاتا ہے۔

دلوں کی زبان

یہ رشتہ نسل، مذہب اور نظام کی حدبندیوں سے بالا ہے۔ جب دنیا کی سیاست نفرت کی دیواریں کھینچتی ہے، گنگا اور زایندہ رود ایک ساتھ سرگوشی کرتی ہیں:

“ہماری لہروں میں ایک ہی موسیقی ہے؛ اسے کوئی استعمار، کوئی جنگ، اور کوئی فاصلہ ماند نہیں کر سکتا۔”

ایران اور ہندوستان کا یہ تعلق دلوں کی ہم آہنگی اور سوچوں کی یکجائی کا ایسا رشتہ ہے جسے نہ وقت کمزور کر سکا، نہ سیاست توڑ سکی—اور جب دل ایک ہو جائیں تو کوئی طاقت دیوار نہیں بن سکتی۔

حوالہ جات

1. مولانا شبلی نعمانی — شعر العجم

2. سید سلیمان ندوی — خطباتِ مدراس

3. ڈاکٹر تارا چند — The Influence of Islam on Indian Culture

4. ایڈورڈ براؤن — Literary History of Persia

5. ڈاکٹر علی اصغر حکمت — فرہنگ ایران و هند در ادوار مختلف

6. سید حسین نصر — Islamic Life and Thought

7. رجب علی بیگ سرور — گزشتہ لکھنؤ

8. آغا مہدی حنفی لکھنوی — عزاداری نامہ

9. فاروق رضوان — Majlis-e-Aza and Cultural Syncretism in India and Iran

10. جواہر لعل نہرو — Discovery of India

11. علامہ محمد اقبال — کلیات و مکاتیب

12. قم و نجف کے علما کے فتاویٰ (دفتر تبلیغات اسلامی، مجلات

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha