تحریر: مولانا محمد عقیل،بڑا گاؤں گوسی،مقیم قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی| عشرۂ محرم کے آخری دنوں میں ہم میں سے ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے باطن میں جھانک کر دیکھے کہ ہم نے عاشوراء سے کیا سبق سیکھا ہے، تاکہ ہم ان پاکیزہ نمونۂ ہائے عمل (رول ماڈل)، یعنی عاشوراء کے مردوں اور عورتوں جیسے بن سکیں، کیونکہ عزاداری کی قدر قیمت اور اہمیت اس بات سے وابستہ ہے کہ ہم ان افکار اور کردار سے کس قدر استفادہ کرتے ہیں۔
عاشوراء سے پہلے ہم کیا تھے ؟ اور عاشوراء کے بعد ہمارے اندر کیا تبدیلی آئی ہے یا عاشوراء کے بعد ہمارے اندر کیا تبدیلی آئی ہے؟ عاشوراء کے بارے میں ہمارے دلی احساسات کیا ہیں ؟
انسان کا دل اس کی زندگی میں مؤثر کردار رکھتا ہے، وہ اس لئے کہ دل ہی ہے جو جذبات و احساسات کا عکاس ہوتا ہے اور کیا ہم متوازن جذبات و احساسات کے مالک ہیں؟ یعنی اگر ہم کسی کو چاہتے ہیں پسند کرتے ہیں اس سے محبت کرتے ہیں تو یہ محبت ، پسندیدگی کسی اصول اور قواعد کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اس میں تمام دلایل و اسباب کو رکھا گیا ہوتا ہے جو ایک انسان کے دل میں ایک دوسرے انسان کے بارے میں محبت کے جذبات پیدا کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر ہم کسی سے نفرت کرتے ہیں یا دوری کرتے ہیں تو اس میں بھی کوئی نہ کوئی اسباب ہوتے ہیں اب اگر ہم کسی سے محبت یا نفرت کرتے ہیں تو اب یہ محبت (اور نفرت ) کا تعلق ایک انسان سے ہو یا یک طرز فکر سے؟
آیا یہ جو ہماری الفت امام حسین ؑ سے ہے یا یزید سے جو نفرت ہے اس کا میعار فقط یہ ہے کہ امام حسین ؑ نواسے رسولﷺ تھے اور یزید سے نفرت اس بنیاد پر ہے کہ یزید قاتل امام حسینؑ تھا ؟ کیا عاشوراء ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ایام ہائے عزاء میں گریہ و ماتم ہمارے لئے کافی ہے کیا امام حسین ؑ کا مقصد یہی تھا کہ میری شہادت کے بعد صرف مجھ پر نوحہ وماتم کیا جائے ۔
نہیں! قسم خدا کی امام حسین ؑ کا ہدف یہ نہیں تھا، بلکہ امام حسینؑ چاہتے تھے کہ اسلام کے قوانین پر عمل ہو اسلام زندہ پایندہ رہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہماری محبت بصیرت والی ہو؛ ہمارا دل مقصد حسینؑ ابن علی کو دوام بخشے، ہمیں کوشش یہ کرنی ہے کہ عزاداری کو اپنے دل ودماغ پر تحریر کرلیں اور ایک زندہ قوم کی طرح دنیا پرسایہ فگن ہو جائیں۔
عاشوراء اور احساسات :
ہم عاشوراء کا ذکر سن کر گریہ و زاری کرتے ہیں، کیونکہ عاشوراء احساسات و جذبات سے جوڑا ہے انہیں جذبات و احساسات سے عاشوراء باقی ہے۔ چودہ سو سال سے جس چیز نے عاشوراء کو زندہ رکھا ہے وہ اس واقعہ کا حق ہونا اور احساسات و جذبات ہے، لیکن اس حالت میں بھی ہمیں شعور اور عقلانیت کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے، لہٰذا جب ہم کسی مجلس یا جلوس میں ہوں تو عقل کا تقاضہ یہ ہونا چاہیے کہ غور وفکر کریں کہ ہمارے اندر کیا تبدیلی آئی ہے؟ اس دو مہینہ آٹھ دن میں ہم نے کیا سیکھا اور جو بھی سیکھا جو بھی حاصل کیا اس کا تعلق بہتر طور پر اسلام کی شناخت سے ہو، یا اپنے معاشر کی سیاست کو صحیح طریقے سے سمجھنے سے۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عاشوراء کو عصری تقاضوں کے ساتھ اسلامی خصوصیات کو محفوظ رکھیں، کیونکہ عاشوراء فکر و عمل میں وہ روح پیدا کرتا ہے جس سے انسان حقیقت شناس بنتا ہے۔
عاشوراء کا ہدف کیا تھا؟
انقلابِ امام حسینؑ مقصد عاشوراء کو بیان کرتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ہمیں اس انقلاب سے تحریک حاصل کرنی چاہیے اور اس کے ذریعے برای اسلام اپنی شخصیت کو مضبوط کرنا چاہیے، تاکہ آج اپنے لئے ایک عاشوراء بنا سکیں، وہ عاشوراء جو تمام مشکلات اور چیلنجرز کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے، کیونکہ امام حسین ؑ، اہل بیت علیہم السّلام اور ان کے اصحاب با وفا نے اپنی ذمہ داری ادا کی ۔
اب ہمارا فریضہ یہ ہے کہ جن چیزوں کا سامنا امام حسینؑ نے کیا ان کے مقابلے اپنی ذمہ داری اور وفا داری کا ثبوت پیش کریں، لہٰذا عاشوراء کو بجائے ایک ایسی مناسبت کے جو ہمارے سماج میں ایک رسم بن گئی ہے ، جس کو ہم صرف سامنے کے آیئنہ میں دیکھتے ہیں اس کو چھوڑ دیں اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا اقدام کریں جو انسانوں کے اندر تبدیلی کا باعث بنے اس تبدیلی کے لئے شرط ہے کہ ہم خود قدم اٹھائیں :( إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ)( در حقیقت خدا کسی قوم کے حالات اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک خود وہ اپنے آپ کو تبدیل نہ کرے۔(سورہ رعد ۱۳۔ آیت ۱۱)
عاشوراء کے ذریعے ہمارا ہدف اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ انسان غور و فکر کرے اپنے آپ میں اور عوام میں تبدیلی لائے مقصد امام حسین ؑ کو پامال نہ کرے، مقصد امام حسینؑ کےلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔
عاشوراء ہمیں یہی درس دیتا ہے!









آپ کا تبصرہ