جمعہ 18 جولائی 2025 - 13:05
غیبتِ کبریٰ کے زمانے میں حضرت بقیۃ‌اللہ (عج) کہاں قیام پذیر ہیں؟

حوزہ/ غیبتِ امام عصر (عج) کے مسئلے میں امام کی اقامت گاہ، غذا یا روزمرہ زندگی کے دیگر پہلو اگر مخفی رکھے گئے ہیں تو اس سے نہ کوئی شُبہ پیدا ہوتا ہے، نہ غیبت کے اصل عقیدے پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ ان اُمور کا پوشیدہ ہونا، خود غیبت کے فلسفے کی منطقی توسیع ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غیبتِ کبریٰ کے دوران امام مہدی عجل‌اللہ‌فرجہ کہاں قیام فرماتے ہیں؟ کیا اُن کا کوئی خاص مکان ہے؟ اور دعائے ندبہ میں رضوی اور ذی طوی جیسے مقامات کا تذکرہ کس مفہوم میں آیا ہے؟

غیبتِ کبریٰ میں حضرت بقیۃ‌اللہ الاعظم امام مہدی عجل‌ اللہ‌ تعالیٰ‌ فرجہ‌ الشریف کے اقامت گاہ کے سلسلے میں اگر کچھ نکات مخفی رکھے گئے ہیں، تو یہ کسی تعجب یا اشکال کا باعث نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ امام علیہ‌السلام کی غیبت بذاتِ خود ایک عقلی، منطقی مسئلہ ہے، ویسے ہی اُن کی سکونت، قیام اور زندگی کے دیگر ذاتی پہلوؤں کا مستور ہونا بھی قابلِ فہم اور قابلِ قبول ہے۔ پس ان امور کا معلوم نہ ہونا کسی تشویش کا باعث نہیں بننا چاہیے۔

تاہم اس سوال کا اجمالی جواب یہ ہے کہ معتبر احادیث اور مستند حکایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امام مہدی علیہ‌ السلام کا کوئی ایک معیّن شہر یا مخصوص اقامت گاہ نہیں ہے جہاں وہ ہمیشہ قیام پذیر ہوں اور جہاں سے کبھی تشریف نہ لے جاتے ہوں، بلکہ حضرت اپنے الٰہی فرائض کی انجام دہی کے لیے مختلف مقامات پر تشریف لے جاتے رہتے ہیں اور مختلف اوقات میں مختلف شہروں میں مشاہدہ کیے گئے ہیں۔

ان مقامات میں بعض اہم شہروں کے نام بطورِ مثال یوں بیان کیے گئے ہیں: مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، نجف اشرف، کوفہ، کربلا، کاظمین، سامرہ، مشہد مقدس، قم اور بغداد۔

اسی طرح متعدد مقدس مقامات جن میں حضرت کے قدمِ مبارک پڑنے کی روایات موجود ہیں، درج ذیل ہیں:

مسجد جمکران (قم)، مسجد کوفہ، مسجد سہلہ، مقام حضرت صاحب‌الامر (عجل‌اللہ‌فرجہ) وادی السلام نجف، اور شہر حلہ۔

البتہ بعید نہیں کہ حضرت کا اصل یا اکثر قیام مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ یا دیگر عتباتِ مقدسہ میں ہو۔

دعائے ندبہ میں حضرت کے لیے بعض مقامات جیسے کوه رضوی اور ذی طوی کا ذکر آتا ہے: «لَیْتَ شِعْری أَیْنَ اسْتَقَرَّتْ بِکَ النَّوَی، بَلْ أَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّکَ أَوْ ثَرَی أَبِرَضْوَی أَوْ غَیْرِهَا أَمْ ذِی طُوَی»

(کاش میں جان لیتا کہ تم کہاں اقامت پذیر ہو، کس سرزمین نے تمہیں اپنے دامن میں جگہ دی ہے؟ رضوی یا ذی طوی یا کسی اور مقام پر؟)

اس نوع کی دعائیہ عبارات کا مقصد کوئی جغرافیائی معلومات فراہم کرنا نہیں بلکہ فراق و محرومی کا اظہار اور دیدارِ یار کی حسرت بیان کرنا ہے۔ ان مقامات کی تاریخی اور معنوی قداست مسلّم ہے اور بعید نہیں کہ حضرت نے ان مقدس مقامات پر عبادت و خلوت گزاری ہو، مگر اس سے ان مقامات کے "دائمی اقامت گاہ" ہونے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا۔

دعائے ندبہ کی بعض دیگر عبارات بھی اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حضرت امام مہدی عجل‌اللہ‌فرجہ لوگوں کے درمیان موجود ہیں، اگرچہ وہ ظاہری طور پر پہچانے نہیں جاتے: «بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ مُغَیَّبٍ لَمْ یَخْلُ مِنَّا، بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ نَازِحٍ لَمْ یَنْزَحْ عَنَّا»

(میری جان قربان ہو اُس غائب وجود پر جو ہم میں سے جدا نہیں، میری جان فدا ہو اُس دور نظر آنے والے پر جو درحقیقت ہم سے دور نہیں)

جہاں تک اُس مشہور و معروف غلط فہمی کا تعلق ہے جو بعض مخالفین، خصوصاً اہل سنت کے بعض علما کی زبان پر جاری رہتی ہے کہ شیعہ، امام مہدی علیہ‌السلام کو سامرہ کے سرداب میں مقیم سمجھتے ہیں، تو یہ دعویٰ سراسر جھوٹ، بہتان اور بے بنیاد الزام ہے۔ اس کا کوئی معتبر ماخذ موجود نہیں، اور یہ محض شیعہ عقائد کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

حوالہ:

کتاب "پاسخ به ده پرسش پیرامون امامت" آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانی رحمۃ‌اللہ‌علیہ

(جاری ہے...)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha