حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، ایک شخص نے عبداللہ بن عباس سے کہا: میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔
ابن عباس نے پوچھا: کیا تم نے آغاز کر دیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، ابھی ارادہ کیا ہے۔
ابن عباس نے کہا: کوئی حرج نہیں مگر خبردار رہنا کہ تین آیاتِ قرآن تمہیں رسوا نہ کر دیں۔
اس نے پوچھا: کون سی تین آیات؟
ابن عباس نے کہا: پہلی آیت یہ ہے:
«أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ؛ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟»
کیا تمہیں یقین ہے کہ تم اس آیت کے مخاطب اور مذمت شدہ افراد میں شامل نہیں ہو؟
اس نے کہا: نہیں، دوسری آیت بتائیے۔

ابن عباس نے کہا: دوسری آیت یہ ہے:
«یَا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ، كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ؛ اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا موجبِ غضب ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔»
کیا تمہیں اطمینان ہے کہ تم اس آیت کے ملامت شدہ لوگوں میں سے نہیں ہو؟
اس نے کہا: نہیں، تیسری آیت بتائیے۔
ابن عباس نے کہا: تیسری آیت اللہ تعالیٰ کا وہ بیان ہے جسے عبد صالح بن شعیب نے روایت کیا ہے، جس نے لوگوں سے اس طرح کہا:
«وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ؛ اور میں نہیں چاہتا کہ جس چیز سے میں تمہیں روکتا ہوں خود اس کا مرتکب بنوں۔»
کیا تم اس آیت کے اہل ہو؟
اس نے کہا: نہیں۔
ابن عباس نے کہا: پس جاؤ اور سب سے پہلے خود کو سنوارو پھر دوسروں کو نصیحت کرو۔









آپ کا تبصرہ