حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ بغداد آیت اللہ سید یاسین موسوی نے نمازِ جمعہ کے خطبے میں عراق کے سیاسی نظام اور انتخابی عمل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ بائیس برسوں سے ملک میں جمہوریت کا صرف ظاہری تصور باقی رہ گیا ہے، جبکہ عوام کی اصل نمائندگی ختم ہو چکی ہے۔
آیت اللہ سید یاسین موسوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ عراق آج ایک نئے انتخابی مرحلے کے دہانے پر کھڑا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ عوام کس کو منتخب کر رہے ہیں اور کیوں؟ انہوں نے زور دیا کہ ووٹ دینا دراصل کسی شخص کو "وکیل" بنانے کے مترادف ہے، نہ کہ اسے "حاکم" تسلیم کرنے کے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے 20 سالوں کے انتخابی تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ فیصلے عوامی رائے سے نہیں بلکہ پارٹی کے مفادات اور پشت پردہ معاہدوں سے طے پاتے ہیں۔ ان کے بقول: "کیا کبھی عوام سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم، صدر یا وزراء کے عہدوں پر کون فائز ہو؟ فیصلے ہمیشہ پارٹی سربراہان اور گروہی طاقتوں نے کیے، نہ کہ عوام نے۔"
آیت اللہ موسوی نے اس نظام کو "جمہوریت کے نام پر آمریت" قرار دیتے ہوئے کہا کہ عراق نے ان برسوں میں طرح طرح کی حکومتیں دیکھیں، مگر ان سب میں عوامی ارادے کی کمی مشترک رہی۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں عوام کو شعور کے ساتھ ووٹ دینا چاہیے اور امیدواروں سے واضح شرائط کے تحت جواب طلبی کرنی چاہیے تاکہ مالی، اخلاقی اور انتظامی بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے۔
آیت اللہ موسوی نے یہ بھی یاد دلایا کہ اگر آئین کو صحیح طور پر نافذ کیا جاتا تو عراق کی 80 سے 85 فیصد مشکلات حل ہو جاتیں۔
آخر میں امام جمعہ بغداد نے کہا کہ حقیقی جمہوریت اس وقت قائم ہو سکتی ہے جب نمائندے عوام کے وکیل بن کر ان کے مسائل جیسے روزگار، بجلی، پانی، زراعت، صنعت اور بنیادی ڈھانچے کے لیے ٹھوس اور شفاف منصوبے پیش کریں، نہ کہ محض "تبدیلی" جیسے کھوکھلے نعروں پر اکتفا
کریں۔









آپ کا تبصرہ