حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، عراق کے دارالحکومت بغداد کے امام جمعہ آیت اللہ سید یاسین موسوی نے خطبہ جمعہ میں خطاب کے دوران کہا: مسئلہ فلسطین عرب اقوام اور مسلمانوں کا مرکزی مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا: بعض عرب ممالک کارٹر کے دور سے لے کر آج تک امریکی دباؤ کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لا رہے ہیں۔
حوزہ علمیہ نجف اشرف کے اس ممتاز استاد نے مزید کہا: ان ممالک، جن میں حسنی مبارک کے دور میں مصر، شاہ حسین کے دور میں اردن، متحدہ عرب امارات اور دیگر شامل ہیں، نے مسئلہ فلسطین سے دستبرداری اختیار کر لی ہے جبکہ یہ مسئلہ اب بھی عرب اقوام کے دل میں زندہ ہے۔
انہوں نے کہا: اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل لالچ اور خوف کی وجہ سے ہے، خواہ وہ جنگ کا خوف ہو، اقتدار کے زوال کا اندیشہ ہو، یا اقتصادی پابندیوں کا ڈر۔ ان ممالک کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے لیکن انہیں بخوبی معلوم ہے کہ امریکہ کسی عہد کا پابند نہیں، جیسا کہ تجربے نے بھی ثابت کیا ہے۔
آیت اللہ موسوی نے امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے جھکاؤ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ معاملہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ امارات ایک عرب ملک سے عبری ملک میں تبدیل ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: لبنان میں بھی ایک ایسا دھڑا موجود ہے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے، مگر یہ دھڑا کسی اصول و ضوابط کا حامل نہیں۔
آیت اللہ سید یاسین موسوی نے تاکید کی کہ عراقی عوام کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کو قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا: شمالی عراق میں بعث پارٹی کے دفتر کو دوبارہ کھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور بعض عراقی حکام صدام حسین کی بیٹی رغد صدام کو آئندہ انتخابات میں امیدوار بنانے کے خواہاں ہیں، جو عراق کو کمزور کرنے کی ایک سازش ہے۔
نجف اشرف کے اس ممتاز استاد نے مزید کہا: عراق ان عرب ممالک سے مختلف ہے جو امریکہ کے احکامات کے تابع ہیں۔ آج ٹرمپ اردن اور مصر سے فلسطینیوں کو بسانے کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ وہ غزہ کا کنٹرول حاصل کر سکے اور یہ سب امت مسلمہ کی کمزوری اور عزت نفس کے فقدان کے باعث ہو رہا ہے۔









آپ کا تبصرہ