حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل، جنگ بندی کے باوجود، غزہ کی جنگ میں اب بھی انسانیت کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب غزہ کی میونسپلٹی کا کہنا ہے کہ ضروری مشینری کے نہ داخل ہونے کی وجہ سے بلدیاتی کاموں میں رکاوٹیں آ رہی ہیں۔
ادارے کی غزہ میں منصوبہ بندی کی کوآرڈینیٹر کیرولین ولمن نے اناطولیہ نیوز ایجنسی سے بات چیت میں بتایا کہ جنگ بندی کے باوجود غزہ میں انسانی حالات میں زیادہ بہتری نہیں آئی ہے۔ پانی اور رہائش کی شدید قلت برقرار ہے جہاں لاکھوں افراد سردیوں کے قریب آتے ہوئے خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تنظیم کی ٹیمیں پانچ سال سے کم عمر بچوں اور حاملہ خواتین میں شدید غذائی قلت کے مسلسل کیسز ریکارڈ کر رہی ہیں، اور خوراک کی صورت حال اس وقت بھی تشویشناک ہے، چاہے معمولی سی بہتری ہوئی ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر صحت کی خدمات فراہم کرنا اب بھی بہت مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا، "غزہ کے فلسطینی دو سال سے نسل کشی کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں لوگوں کے لیے محض یہ یقینی بنانے کے لیے کہ وہ اپنے خیموں میں بستر اور کمبل کے ساتھ سو سکیں، فوری امداد درکار ہے۔ غزہ کی تعمیر نو میں بہت وقت لگے گا، لیکن ہم اب تک علاقے میں بنیادی انسانی تقاضوں کی کم از کم سطح تک بھی نہیں پہنچ پائے ہیں۔"
کیرولین ولمن نے زور دے کر کہا کہ "غزہ کے لیے انسانیت کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کو کسی بھی قسم کی سیاسی شرائط سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔"
دوسری جانب، غزہ کے میئر یحییٰ السراج نے کہا کہ مشینری کے نہ داخل ہونے کی وجہ سے غزہ کے بلدیاتی کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ موجودہ مرحلے میں بلدیاتی کاموں کو بہتر بنانے کے لیے 250 مشینری کی فوری ضرورت ہے۔
السراج نے کہا کہ غزہ کو کنویں بنانے اور پانی کے نیٹ ورک کی مرمت کے لیے ایک ہزار ٹن سیمنٹ درکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بلدیاتی کام جاری ہیں لیکن وہ دستیاب صلاحیتوں کے مطابق جزوی اور محدود ہیں۔









آپ کا تبصرہ