حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حرم مطہر بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہا کے خطیب حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر رضائی اصفہانی نے کہا ہے کہ ایرانی قوم نے آٹھ سالہ اور بارہ روزہ دو مسلط کردہ جنگوں میں جو استقامت دکھائی، وہ قرآن کی آیات پر عمل کا نتیجہ ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر رضائی اصفہانی نے حرم مطہر میں منعقدہ ’’تلاوت فاطمی‘‘ نامی پروگرام سے خطاب میں سورۂ فتح کی آخری آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن نے ہمیں تین طرح کی قرائت کی دعوت دی ہے:
1. فہم کے ساتھ تلاوت،
2. تدبر کے ساتھ ترتیل،
3. اور عمل کے ساتھ تلاوت۔
قرآن یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم اس کی آیات میں تفکر، تعقل اور تدبر کریں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فکر یعنی مقدمات پر غور، تعقل یعنی اصول و قواعد کا استخراج، اور تدبر یعنی نتائج و اثرات کو سمجھنا۔
استادِ حوزہ و یونیورسٹی نے آیت «محمّد رسول اللہ والذین معه أشدّاء علی الکفار رحماء بینهم» کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ ’’کفار پر شدت‘‘ کا مطلب اسلام کے محارب دشمنوں کے مقابلے میں سختی سے پیش آنا ہے، نہ کہ تمام غیر مسلمانوں کے ساتھ سختی کرنا۔ اس کے برخلاف، رحمت و نرمی کا رویہ گھر، معاشرے اور ہمسایوں کے ساتھ برتا جانا چاہیے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین رضائی اصفہانی نے قرآنی اصولِ جہاد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن نے مظلوموں کو دفاع کا حق دیا ہے اور مسلمانوں کو دشمن کے سامنے استقامت کی دعوت دی ہے، جس کا نتیجہ الٰہی نصرت اور پائیداری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے معاصر تاریخ کے شواہد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے بارہ روزہ جنگ میں امریکہ اور اسرائیل جیسی دو ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دنیا پر ثابت کیا کہ دشمن ایران کی علمی و دفاعی طاقت سے خوفزدہ ہے۔
تاریخِ ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قاجار اور پہلوی دور میں ملک اپنی سرزمین کے متعدد حصے کھو چکا تھا، لیکن انقلاب اسلامی کے بعد ایران نے آٹھ سالہ اور بارہ روزہ دونوں مسلط کردہ جنگوں میں استقامت دکھائی اور ایک انچ بھی اپنی سرزمین سے دستبردار نہیں ہوا۔
آخر میں انہوں نے اس کامیابی کو آیاتِ قرآنی پر عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ’’اگر ہم اشداء علی الکفار اور رحماء بینہم کے قرآنی اصول کو تفکر، تعقل اور تدبر کے ساتھ اپنائیں تو نتیجہ ہمیشہ کامیابی، عزت اور سربلندی کی صورت میں سامنے آئے گا۔‘‘









آپ کا تبصرہ