حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفیٰ پاکستان میں شعبۂ تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر کاظم سلیم نے اپنے خطاب میں کہا: جدید تقاضوں کے مطابق تحقیق وقت کی ایک اہم اور ناگزیر ضرورت ہے۔ اگرچہ دینی مدارس کا کردار اپنی جگہ واضح اور مسلم ہے، تاہم آج کی دنیا نمایاں طور پر بدل چکی ہے۔ ماضی میں پیغام کو عوام تک پہنچانا بنیادی ہدف ہوتا تھا اور زیادہ تر جذباتی اثرات پر انحصار کیا جاتا تھا، جس کے طویل المدت علمی نتائج عموماً سامنے نہیں آتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: آج کی صورتحال اس سے مختلف ہے اور اب مضبوط علمی بنیاد کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان میں اسلامی علوم سے متعلق تقریباً 90 ایچ ای سی سے منظور شدہ تحقیقی مجلات موجود ہیں، جو ہمارے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان سے وابستہ اکثر اہلِ علم دینی مدارس سے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان مجلات میں شائع ہونے والے مقالات کو علمی حلقوں میں معتبر تسلیم کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کاظم سلیم نے کہا: عصرِ حاضر میں اٹھنے والے شبہات کا علمی اسلوب میں جواب دینا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اس سمت میں ایک علمی تحریک کا آغاز کیا جائے اور الحمدللہ اس کی صلاحیت ہمارے اندر موجود ہے۔

المصطفیٰ اوپن یونیورسٹی پاکستان کے انچارچ ڈاکٹر محمد اعجاز نگری نے “قرآن میں عدمِ تحریف کا نظریہ: شیخ محسن علی نجفی کی نگاہ میں” کے عنوان سے تفصیلی مقالہ پیش کیا۔
انہوں نے اس موضوع پر عامہ و خاصہ کے مختلف آراء کا جائزہ لیا اور واضح کیا کہ مرحوم شیخ محسن علی نجفی کے نزدیک قرآن کی عدمِ تحریف کا ثبوت تواتر سے ہے، نہ کہ محض دو گواہوں کی شہادت سے۔

جامعۃ المصطفیٰ پاکستان شعبہ تعلیم کے مسئول ڈاکٹر غلام جابر محمدی نے تاریخِ ترجمہ و تفسیرِ قرآن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: اردو زبان میں قرآنِ کریم کے تراجم اور تفاسیر کا آغاز 1260ھ کے بعد ہوا۔ اس سے قبل موجود تفاسیر زیادہ تر ناقص تھیں جبکہ اس کے بعد ایک منظم اور مکمل تفسیری سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا بھر میں قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے میدان میں برصغیر، خصوصاً اردو زبان، نمایاں مقام رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مکتبِ اہلِ بیت میں مکمل تفاسیر و تراجم کی تعداد تقریباً 40 ہے، جبکہ ناقص تفاسیر کی تعداد 45 اور دیگر زبانوں سے ترجمہ شدہ تفاسیر کی تعداد 15 ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر شیعہ علماء کے تفسیری آثار کی تعداد 100 سے زائد بنتی ہے۔
ڈاکٹر غلام جابر محمدی نے تفسیر الکوثر اور مرحوم شیخ محسن علی نجفی کے ترجمۂ قرآن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:محسن ملت شیخ محسن علی نجفی (رہ) نے ترجمہ سے قبل قرآنِ کریم پر ایک نہایت دقیق، جامع اور علمی مقدمہ تحریر کیا ہے، جو فکری و تحقیقی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس ترجمے کو مزید مستند اور دقیق بنانے کی ضرورت ہے اور اگر کوئی محقق اسے اپنے تحقیقی مقالے یا تھیسس کا موضوع بنائے تو یہ ایک مفید اور قابلِ قدر علمی خدمت ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا: ترجمۂ کوثر کی اسلوبی خصوصیات میں آیت اور ترجمہ کے درمیان واضح مطابقت، آزاد ترجمے کے باوجود تحت اللفظی ترجمے کی رعایت اور حواشی میں دقت و سلاست کا حسین امتزاج شامل ہے۔ اسی طرح اعتدال بھی تفسیر الکوثر کی ایک نمایاں اور اہم خصوصیت ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ہفتہ تحقیق کے دوسرے روز منعقدہ تفسیر الکوثر کی جدید روش پر منعقدہ نشست علمی میں جامعۃ الولایہ،مدینۃ العلم،جامعۃ المنتظر العالمیہ،جامعۃ الرضا اور جامعۃ الکوثر کے اساتذہ وطلاب نے شرکت کی۔ نشست علمی کے بعد طلبا وعلماء نے بک اسٹالز کا دورہ کیا۔ اس کے بعد تمام طلاب کو حجۃالاسلام طاہر رضا صاحب نے علما کی تصنیفی وتالیف خدمات پر لیکچر دیا ۔
بعد ازاں طلباء کو دو حصوں میں تقسیم کئے گئے اور ایک گروپ کو ڈاکٹر کمیل کاظم اور دوسرے گروپ کو مولانا مجیب الحسن صاحب نے اپنے تحقیقی تجربات سے آگاہ کیا۔










آپ کا تبصرہ