حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین محمد مہدی ماندگاری نے حرمِ مطہر حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا میں خطاب کرتے ہوئے ماہِ رجب کے آغاز کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ماہِ رجب دعا، استغفار، توبہ اور خاص مہمانی خدا کا مہینہ ہے۔ اولیائے الٰہی اس مہینے میں روزہ، شب بیداری، دعا اور مناجات کے ذریعے خود کو ماہِ مبارک رمضان کے لیے آمادہ کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ماہِ رجب امام محمد باقر علیہ السلام، امام محمد تقی علیہ السلام اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولادت، بعثتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت جیسے عظیم مناسبتوں سے مزین ہے، اور ان میں سے ہر مناسبت اپنے اندر گہرے تربیتی پیغامات رکھتی ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین ماندگاری نے ایران میں ماہِ رجب کے بعض اہم ایام سے تقارن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یومِ بصیرت (۹ دی)، شہید سردار حاج قاسم سلیمانی کی برسی (۱۳ دی) اور شاہ کے فرار کا دن (۲۶ دی) سب عبرت آموز اور تربیتی مہینہ ہے جن پر غور و فکر ضروری ہے۔
انہوں نے دعا کی تین بنیادی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ دعا اس وقت مؤثر اور تربیت کنندہ بنتی ہے جب وہ خدا پر پختہ عقیدہ، خدا پر اعتماد اور امور کو خدا کے سپرد کرنے کے جذبے کے ساتھ ہو۔ عقیدے سے مراد خدا کے علم، قدرت، رحمت اور حکمت پر ایمان، اعتماد کا مطلب یہ یقین ہے کہ خدا جو دے یا نہ دے وہ ہمارے حق میں بہتر ہے، اور واگذاری یعنی ہر معاملے کو خدا کے حوالے کر کے اس کی تقدیر پر راضی رہنا۔
انہوں نے قرآن و روایات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ خدا وہی ہے جس نے موسیٰ علیہ السلام کے لیے دریا کو چیر دیا، ابراہیم علیہ السلام پر آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکڑی کے جال کے ذریعے محفوظ رکھا، لہٰذا ہمیں اسی پر بھروسہ کرنا اور اپنے امور اسی کے سپرد کرنا چاہیے۔
حجت الاسلام والمسلمین ماندگاری نے واضح کیا کہ دعا بغیر عمل کے ایسے ہے جیسے بیج کے بغیر پانی دینا۔ عمل بیج ہے اور دعا اس کی آبیاری۔ اگر صرف دعا ہو اور عمل نہ ہو تو کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ انہوں نے رہبرِ معظم انقلاب کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس لمحے عمل کا آغاز ہو، اسی لمحے دعا بھی شروع ہونی چاہیے تاکہ عمل اثرگذار بن سکے۔
انہوں نے سورۂ آلِ عمران کی آیت 200 اور اس کی امام محمد باقر علیہ السلام کی تفسیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آیت منتظرینِ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ضابطۂ حیات ہے۔ خداوند متعال فرماتا ہے: “اے ایمان والو! صبر کرو، ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو، رابطے مضبوط رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ فلاح پا جاؤ”۔ امام باقر علیہ السلام نے اس آیت کو واجبات پر صبر، محرمات سے اجتناب، دینی روابط کی حفاظت اور حدودِ الٰہی کی پابندی سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ دنیا و آخرت کی فلاح، امام زمانہؑ کے ظہور اور ان کی حکومت تک پہنچنا ہے۔
انہوں نے موجودہ حالات میں استقامت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج نماز، حجاب اور مظلوموں کے دفاع جیسے واجبات پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے، چاہے اس پر مذاق یا اذیت کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ دورِ غیبت میں ولیِ خدا اور ولی فقیہ کی اطاعت واجب ہے، جبکہ ذمہ داروں پر لازم ہے کہ وہ جان و دل لگا کر کام کریں، عوام کے معاشی مسائل حل کریں اور تبیین و نگرانی کے ذریعے کوتاہی اور خیانت کو روکیں۔









آپ کا تبصرہ