۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
ایرانی پارلیمنٹ میں ریسرچ سنٹر کے سربراہ    حجت الاسلام و المسلمین احمد مبلغی

حوزہ/ ایران میں رہبر کا انتخاب کرنے والی سپریم کونسل کے رکن نے کہا ہے کہ بعض لوگ مذاہب و ادیان کے درمیان پائی جانے والے مشترکہ چیزوں کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ ایران میں رہبر کا انتخاب کرنے والی سپریم کونسل کے رکن نے کہا ہے کہ بعض لوگ مذاہب و ادیان کے درمیان پائی جانے والے مشترکہ چیزوں کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی روحانیت کا فقدان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ مذاہب کے اندر داعش جیسے شدت پسند گروہ پیدا ہو جاتے ہیں جو دوسرے مذاہب و ادیان کے پیروکاروں کی نسبت شدید متعصبانہ نظریات کے حامل ہوتے ہیں۔

ایران میں رہبر کا انتخاب کرنے والی سپریم کونسل کے رکن حجت الاسلام و المسلمین احمد مبلغی نے ادیان و مذاہب یونیورسٹی میں ’’پائیدار امن و امان کے قیام میں مذاہب و ادیان کا کردار‘‘ کے عنوان سے منعقد کی جانے والی ایک علمی نشست میں کہا ہےکہ دوسرے مذاہب و ادیان کے پیروکاروں کے معاملے میں ہمارا رویہ شدت پسندانہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اجتماعی میدان میں دوسرے ادیان و مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی و یگانگت کے ساتھ رہنا چاہیے اور ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہییں۔

حوزہ علمیہ کے استاد نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ روحانیت کا فقدان اس بات کا سبب بنا ہے کہ لوگ دین کے اجتماعی اور دینی معاملات کی درست تفسیر خود اس دین کے اصولوں کی بنیاد پر نہیں کر سکتے۔یہی وجہ ہے کہ روحانیت کے فقدان کے ساتھ دین کی جو تصویر ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ دھندلی ہے اور ہم آہنگی و اتحاد جیسی خصوصیات سے عاری ہے۔

سپریم کونسل کے مرکز تحقیقات اسلامی کے سربراہ نے اپنی گفتگو کے دوران روحانیت کے دو معانی بیان کیے:

پہلی تعریف بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس تعریف کے قائل افرادکہتے ہیں کہ ایک دیندار انسان کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ دینی عبادات و اعمال کو بعینہٖ اسی طریقے سے انجام دے جس طرح اسے حکم دیا گیا ہے بلکہ وہ کسی بھی طریقے سے اپنے اعمال کو انجام دے سکتا ہے۔ یہ سیکولرزم کا نظریہ ہے۔

حجت الاسلام و المسلمین مبلغی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظریہ ان افراد کا ہے کہ جو کہتے ہیں:’’اہم بات یہ کہ انسان عبادت کی روح کو حاصل کرے، چاہے اس کے لیے اسے اعمال کو کسی بھی طریقے سے انجام دینا پڑے۔‘‘

حوزہ علمیہ کے استاد نے کہا کہ ہم اس طرح کی روحانیت کو قبول نہیں کرتے کیونکہ اس تفسیر کو اگر مان لیا جائے تو شریعت کا فلسفہ اور وجود اصلاً بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یعنی شریعت کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور ہر انسان جیسا چاہے اپنے اعمال انجام دے سکتا ہے۔ جبکہ یہ درست نہیں ہے۔

حجت الاسلام و المسلمین مبلغی نے دوسرا معنی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مطابق شریعت کے اعمال و مناسک اپنا اعتبار اور اہمیت رکھتے ہیں اور ایک دیندار انسان پر واجب ہے کہ جس طرح اسے اعمال کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح بجا لائے۔

انہوں نے کہا کہ دینی اعمال اپنی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے پیچھے ایسے معانی و مفاہیم کا مجموعہ نظر آتا ہے جو دین کو تشکیل دیتے ہیں اور دینی کی بنیادی اکائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک دیندار انسان جہاں ان اعمال کی پابندی کرتا ہے وہاںوہ ان اعمال کے فلسفہ و علت اوران کے اندر پائے جانے والی مصلحتوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے تا کہ دین کی صحیح روح اس کے ہاتھ لگے اور وہ دینی طریقے سے اپنی زندگی گزار سکے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .