حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل شمالی پنجاب کے صوبائی صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے شیعہ قیادت کی رہنمائی میں 16 نکاتی مطالبات حکومت کے سامنے پیش کر دیئے، علامہ سبطین حیدر سبزواری نے راولپنڈی میں پریس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تقریباً دو ماہ سے ملک کے مذہبی طبقات میں پائی جانے والی بے چینی اور خلفشار نے ملکی فضا کو مکدر کرنے میں کردار ادا کیا ہے2 دہائیوں بعد ملک ایک بار پھر فرقہ وارانہ اختلافات کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے ہمارے بعض سادہ لوح مذہبی قائدین اور علماء تکفیری و ناصبی عناصر کے گھیرے میں آ کر اسلامی مکاتب کے درمیان پیدا کی گئی دراڑوں کو مزید وسیع کر رہے ہیں نام نہاد تحفظ اسلام بل کے نام پہ برپا تحاریک سے مخصوص منفی مقاصد کے حصول کی کاوش جاری ہے اس تمام صورتحال میں اگرچہ ملی یکجہتی کونسل، متحدہ مجلسِ عمل اور اتحاد بین المسلمین کے لئے کوشاں مختلف ادارے اپنی توانائی کے مطابق وحدت و اخوت کی فضا قائم کرنے کے لئے سعی کر رہے ہیں لیکن جب تک ریاستی اختیار و حکومتی ذمہ داری سامنے نہیں آتی تب تک فتنہ پرور عناصر کا راستہ نہیں روکا جا سکتا ذمہ دار اور مقتدر ادارے اپنی حقیقی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں اس تمام صورتحال میں پاکستان کا ہر شہری پریشان اور بے چین ہے اور اپنے حقوق کے سلب ہونے اور اپنی شہری آزادیوں کے غصب ہونے پر سراپا احتجاج ہے ہم نے اس عوامی بے چینی کو حکمرانوں تک پہنچانے کے لئے گزشتہ 2 ماہ سے مختلف ذرائع سے کاوشیں جاری رکھی ہوئی ہیں لیکن حکمران اور مقتدر حلقے اس بے چینی کے خاتمے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہے۔
مظلومین، پر امن علماءاور اتحاد و وحدت کا درس دینے والے قائدین کو ناروا پابندیوں کی زد میں لایا جا رہا ہے۔ اس کی بڑی مثال انہی دنوں آپ کے ضلع راولپنڈی میں علامہ محمد سید تقی نقوی،علامہ سید افتخار حسین نقوی،علامہ ملک اعجاز حسین نجفی اور آیت اللہ محمد حسین نجفی پر عائد کردہ غیر آئینی پابندیاں ہیں جس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور حکمرانوں سے متقاضی ہیں کہ پابندیاں فی الفور ہٹائی جائیں، اس تمام صورتحال میں پاکستان کا ہر شہری پریشان اور بے چین ہے اور اپنے حقوق کے سلب ہونے اور اپنی شہری آزادیوں کے غصب ہونے پر سراپا احتجاج ہے۔ ہم نے اس عوامی بے چینی کو حکمرانوں تک پہنچانے کے لئے گذشتہ دو ماہ سے مختلف ذرائع سے کاوشیں جاری رکھی ہوئی ہیں لیکن حکمران اور مقتدر حلقے اس بے چینی کے خاتمے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نئی آبادیوں میں مساجد، مدارس، امام باگاہوں، مجالس اور جلوس کیلئے انعقاد میں کسی قسم کی رکاٹ نہ ڈالی جائے اور پورے پاکستان کی جیلوں میں بالخصوص پنجاب کی جلوں میں قید شیعہ قیدیوں کی مذہبی آزادیوں پر پابندیاں عائد ہیں ختم کی جائیں اور انہیں باجماعت نماز، نماز جمعہ، نماز عیدین اور محرم الحرام سمیت پورے سال میں عزاداری امام حسین ؑ منعقد کرانے دی جائے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ عزاداری کے انعقاد اور دیگر پر امن سرگرمیاں سر انجام دینے والے شیعہ افراد کو فورتھ شیڈول جیسے ظالمانہ قانون کی زد میں لایا جاتا ہے یہ سلسلہ بند کیا جائے۔سوشل میڈیا سمیت سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ پر فرقہ وارانہ تحریروں اور شیعہ عقائد کیخلاف مواد نشر ہوتا رہتا ہے، لہذا میڈیا کے ذریعے تعصب پھیلانے والوں پر پابندی لگائی جائے۔
انہوں نے واضح کیاکہ اگر مطالبات پر عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پرامن عوامی احتجاج کے لئے عوام کو شاہراہوں پر لائیں انہوں نے18 اکتوبرکی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان مطالبات پر عملی پیش رفت نہ ہوئی تو ہم احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے انہوں نے 16 نکاتی مطالبات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ بے گناہ افراد کو فوری رہا کیا جائے جن کے خلاف مقدمات یاشواہد ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے انہوں نے ایران،عراق وشام جانیوالے زائرین کے حوالے سے حکومتی پالیسی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں فرقہ وارانہ فساد کی سازش میں کن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان لوگوں کے روابط کن افراد سے تھے حکومت قوم کو بتائے ففتھ جنریشن وار پر حکومت اور اداروں کو فوری نوٹس لینا چاہیے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے خلاف پھانسی کا جو فیصلے پر عمدرآمد ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی و صوبائی اور ڈویژنل سطح پر شیعہ اوقاف بورڈ بنانے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے جیلوں میں پابند سلاسل قیدیوں پر عائد مذہبی پابندیاں ختم کی جائیں تمام سرکاری اور ہر سطح کی امن کمیٹیوں میں اہل تشیع کو مناسب نمائندگی دی جائے۔ امید ہے کہ مقتدر حلقے اور حکمران طبقے ان مطالبات پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور عوام کو مایوس نہ کریں گے۔
پریس کانفرنس میں علامہ سید سبطین حیدر سبزواری، علامہ سید جعفر عباس نقوی، علامہ غلام قاسم جعفری، علامہ سید سجاد حسین ہمدانی، علامہ سید محسن نقوی، علامہ ملک ملازم حسین علوی، علامہ سید رضوان علی گردیزی، علامہ کوثر عباس قمی، علامہ قمر جعفری، سید اظہار بخاری، سید ذیشان حیدر شمسی (مرکزی صدر جے ایس او)، سید محمد ہادی ہمدانی ایڈووکیٹ، سید نزاکت نقوی اور سید فرید نقوی بھی موجود تھے۔