۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
حجت الاسلام رضا رمضانی

حوزہ/ اہل بیت(ع) عالمی اسبملی کے سیکرٹری جنرل: جناب ابوطالب کی شخصیت کی شناخت میں ہمیں صرف آپ کے ایمان کے مسئلے کو ہی پیش نظر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کی شخصیت کے دیگر گوشوں پر بھی تحقیق کرنا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بعثت جیسے عظیم واقعہ میں تاثیر گزار شخصیتوں کو متعارف کرنا ضروری ہے، جناب ابوطالب کی شخصیت کی شناخت میراث اسلام کے ایک اہم حصے کی شناخت ہے، بعثت اور اسلام کی رشد و نمو میں جن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ان میں سے ایک جناب ابوطالب ہیں۔

یہ باتیں اہل بیت(ع) عالمی اسبملی کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی نے "جناب ابوطالب (ع) حامی پیغمبر اعظم (ص) بین الاقوامی سیمینار" کی پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے قم دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: جناب ابوطالب کی شخصیت کی شناخت میں ہمیں صرف آپ کے ایمان کے مسئلے کو ہی پیش نظر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کی شخصیت کے دیگر گوشوں پر بھی تحقیق کرنا چاہیے، آپ کی شخصیت ایمان کی بحث سے کہیں بالا تر ہے۔ آپ خود کو پیغمبر اکرم کا محافظ سمجھتے تھے لہذا بعض تاریخی کتابوں میں پیغمبر اکرم کی حفاظت کی اہم ذمہداری جناب ابوطالب کے دوش پر قرار دی گئی ہے جناب ابوطالب کو جواںمردی اور وفاداری کا ایک مصداق پہچنوانا چاہیے۔

انہوں نے نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید کی جناب ابوطالب کے بارے میں گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میرا یہ ماننا ہے ابن ابی الحدید جناب ابوطالب کے ایمان کے قائل تھے لیکن ایمان سے بالاتر آپ کی شخصیت کا اسلام کے حامی ہونے کے عنوان سے تعارف کروانا اہم ہے۔ اہل تشیع میں جناب ابوطالب کے ایمان کے حوالے سے کچھ کتابیں لکھی گئی ہیں جو آپ کے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ جیسے شیخ مفید کا رسالہ جو اس موضوع پر ہے اور اس کے علاوہ کسی دوسری کتاب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے مزید کہا: عرب کے دوران جاہلیت میں جب اخلاق و ثقافت کا فقدان تھا ایک شخص "امین" کے نام سے معروف ہوتا ہے اور اسلام نامی دین کی تبلیغ کرتا ہے، پیغمبر اکرم نے جب دین کی تبلیغ کا کام شروع کیا تو مسلسل آپ پر دباؤ ڈالا جانے لگا اور تازہ مسلمان ہونے والے افراد کو ستایا جانے لگا۔ تو ایسے ماحول میں جناب ابوطالب جیسی شخصیت تھی جنہوں نے رسول اسلام کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا اور ہر میدان میں آپ کی پشت پناہی کی چونکہ بہرحال جناب ابوطالب کا قریش کے درمیان ایک مقام تھا۔ اور یہ حمایت اور دفاع صرف ایک کفیل اور سرپرست ہونے کے عنوان سے نہیں تھا بلکہ رسول اسلام کی نبوت پر اعتقاد کی وجہ سے تھا۔

آیت اللہ رمضانی نے زور دے کر کہا: جناب ابوطالب کے اشعار آپ کے موحد ہونے کی عکاسی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود تاریخ نے کم لطفی کرتے ہوئے آپ پر کفر کی تہمت لگائی اور ایمان پر شکوک و شبہات پیدا کر دئے!

انہوں نے جناب ابوطالب بین الاقوامی سیمینار کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس سیمینار میں صرف جناب ابوطالب کے ایمان کے حوالے سے گفتگو نہیں کریں گے چونکہ یہ مسئلہ ہمارے لیے حل شدہ ہے۔ جناب ابوطالب کی شخصیت اسلامی شخصیت ہے نہ کہ شیعی، لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ جس سال جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی رحلت واقع ہوئی اس سال کو پیغمبر اکرم نے عام الحزن کا نام دیا۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے کہا: شعب ابی طالب میں پیغمبر اکرم (ص) اور ان کے اصحاب کے ساتھ کفار نے نہ صرف اقتصادی بائیکاٹ کیا بلکہ ان کا سوشل بائیکاٹ بھی کیا تھا تاکہ کوئی دوسرا حتیٰ پیغمبر کے اصحاب کے ساتھ گفتگو بھی نہ کر سکے۔ ان تمام سخت حالات و شرائط میں شعب ابی طالب کی ذمہ داری جناب ابوطالب پر تھی۔ لہذا فطری بات تھی کہ ان کی رحلت کے بعد پیغمبر اکرم کو سخت صدمہ ہو اور آپ اس سال کا نام سال حزن و غم رکھ دیں۔

انہوں نے کہا: اہل بیت(ع) اسمبلی میں جناب ابوطالب حامی پیغمبر اعظم(ص) سیمینار کا منصوبہ بنائے جانے کے بعد ہم نے مراجع کرام سے ملاقات کی انہوں نے معنوی اور مادی حمایتوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔

انہوں نے اس سیمینار کے انعقاد کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: یہ سیمینار وحدت مسلمین اور امت مسلمہ میں تقریب کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے منعقد کی جا رہی ہے، اس لیے کہ ایمان ابوطالب کا مسئلہ اہل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہے اور اس بارے میں مختلف مقالات بھی لکھے جا چکے ہیں، ان کتابوں ، مقالوں اور دیوان شعر کو اکٹھا کرنا اس سیمینار کی فعالیتوں کا حصہ ہے۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے سیمینار کے سیکرٹریٹ کو موصول ہوئے مقالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ۴۰۰ سے زیادہ مقالوں کے خلاصے اور ۱۰۰ مقالے پانچ زبانوں میں موصول ہوئے ہیں۔ نیز ملک کے اندر اور باہر علمی نشستیں بھی منعقد ہوں گی۔ اس کے علاوہ صاحب نظر اساتید سے انٹرویوز بھی لیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا: "شعر و ادب" کے شعبے میں مشاعرہ کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی جس میں نامور شعراء اپنے اشعار پیش کریں گے۔ اور شعبہ قم کی مرکزیت میں "شب شعر" بھی منعقد ہو گی۔ اور ہم اس کوشش میں ہیں کہ ۲۶ رجب جناب ابوطالب کے یوم وفات کو یتیموں کی کفالت کا دن کے نام سے منظور کروائیں۔ نیز یونیورسٹیوں میں تاریخ اسلام کی فیکلٹی میں جناب ابوطالب کے موضوع کو پیش کر کے اس موضوع پر تھیسس لکھنے والے اسٹوڈینٹس کی حمایت کا اعلان کریں۔

آیت اللہ رمضانی نے جناب ابوطالب حامی پیغمبر اعظم بین الاقوامی سیمینار کے انعقاد میں تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: یہ سیمینار گزشتہ سال مارچ کے مہینے میں منعقد ہونا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ اور ایک سال انتظار کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مزید تاخیر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور سیمینار کو ویبنار کی صورت میں آنلاین منعقد کیا جائے۔ اور تین دن تک محققین اور مقررین اس ویبنار میں اپنے مقالات اور مطالب پیش کریں گے۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے سیمینار کے انعقاد کی تاریخ کے حوالے سے کہا: یہ سیمینار اس سال ۲۶ رجب المرجب مطابق با ۹ مارچ ۲۰۲۱ سے شروع ہو گا اور ۱۱ مارچ تک جاری رہے گا، مقالات بھیجے کی آخری تاریخ ۶ فروری ۲۰۲۱ ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .