۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ امین شہیدی

حوزہ/ سربراہ امت واحدہ پاکستان نے کہا کہ انقلاب اسلامی ایران اُس الہیٰ نظام کا مقدمہ ہے، جس کی بشارت خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں دی ہے، ہمیں انقلابِ خمینی کے مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام مستعار نہیں بلکہ صحت، بنکاری کے نظام اور ثقافت بھی اس کی اپنی ہے۔ یہ پہلا اسلامی ملک ہے، جو ایٹمی طاقت نہ ہونے کے باوجود دفاعی صلاحیت میں اپنی مثال آپ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے انقلاب اسلامی ایران کے بیالیس سال مکمل ہونے پر ایرانی حکومت اور عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔ اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے اپنے ایک تحریری پیغام میں کہا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران اُس الہیٰ نظام کا مقدمہ ہے، جس کی بشارت خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں دی ہے،۔ وہ الہیٰ نظام جس کا پرچم اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا، جو مستضعف قرار دیئے گئے ہیں اورخدا انہی لوگوں کو زمین کی وراثت عطا کرے گا۔ آج سے پچاس سال قبل کی عالمی سیاست میں مکتبِ اہل بیتؑ کے پاس کوئی حکومت نہ تھی۔ یہ مکتب صدیوں سے ظلم و جبر اور استحصال کا شکار رہا۔ شیعہ علماء نے فقط واجبات و محرمات اور دینی مسائل کی آگاہی پر اکتفا کیا۔ انہوں نے دین کے آفاقی نظام کی طرف عام آدمی کو متوجہ نہیں کیا۔ معاشرتی جبر، ناصبیت کا غلبہ اور اہلِ بیتؑ کے پیروکاروں کے قتل کو روا رکھنا، یہ وہ تمام وجوہات تھیں، جن کی وجہ سے امویوں اور عباسیوں کے بعد کے ادوار میں بھی اللہ کے نظام کا نظریہ پنپ نہ سکا۔ لہذا مکتبِ تشیع میں اسلامی حکومت کا تصور ماند پڑتا گیا۔

ایک طویل عرصہ کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بلند پایہ فقیہ، عارف، مفسر قرآن اور زمانہ شناس اہلِ علم نے قرآنی آیات کی وہ تعبیریں پیش کیں، جو آئمہ معصومین علیہم السلام نے بیان کی تھیں۔ انقلاب سے قبل بڑے بڑے فقہاء و مراجع کا حکمرانوں سے یہی مطالبہ تھا کہ وہ مکتبِ تشیع کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں خلل پیدا نہ کریں۔ انہیں عزاداری کے انعقاد، مساجد کی تعمیر اور فقہی مسائل پر عمل کرنے کی اجازت درکار تھی اور بس! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی انقلابی تحریک نے اسلام کے چہرہ پر پڑی ہوئی اسی گرد کو صاف کیا۔ آپ نے واضح کیا کہ دین کے نفاذ کے بغیر لوگوں کی زندگی بدلنا اور معاشرہ میں تنظیم پیدا کرنا ممکن نہیں۔ اگر قرآنی آیات پر عمل درآمد نہ ہوا تو ناحق اور ظالم سے مظلوم کا حق لینا مشکل تر ہوگا۔

درحقیقت یہی مکتبِ اہل بیتؑ کا سبق ہے،جو امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور تک منتج ہوتا ہے۔ امام زمان ؑ کی خلافت دراصل خلافتِ الہیہ کا روئے زمین پر غلبہ ہے، لہذا ہمیں اس معنی میں انقلابِ خمینی کے مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں امام سے مراد وہ رہبر و فقیہ ہے، جو امامِ معصوم علیہ السلام کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں امامؑ سے متصل کرتا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی عمل انجام دیا۔ آپ کا سب سے اہم کارنامہ طاقت کے توازن کا خاتمہ تھا۔ آپ نے لا شرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک مستقل الہیٰ نظام کے نفاذ کا اعلان کیا۔ وہ دنیا جو روس اور امریکہ کی طاقت کے زیرِ اثر تھی، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے لائے ہوئے انقلاب سے متاثر ہوئی اور اس انقلاب نے مشرق و مغرب کو مشکل سے دوچار کر دیا۔

آج دنیا بھر میں امریکی نظام رائج ہے، جو تسلط کا نظام ہے۔ تعلیم، صحت، میڈیا اور دیگر شعبہ جات اسی نظام کے تابع ہیں۔ جو بھی اس نظام سے باہر نکلنا چاہتا ہے، وہ امریکہ کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ اور معاشی پابندیوں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کے استقلال کو متزلزل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جنگ کے تسلسل کے باوجود ایران نے کسی بیرونی امداد کے بغیر اپنا لوہا منوایا۔ اللہ کی مدد کرنے والوں کی مدد بھی من جانب اللہ ہوتی ہے، یہی قرآن کا فیصلہ ہے۔ ایسے کٹھن حالات میں بھی ایران نے اپنے ملک میں الیکشن کرائے اور جمہوری عمل کو جاری رکھا۔ یہ جمہوریت مشرق و مغرب کو پسند نہیں، کیونکہ اس جمہوری نظام کی وجہ سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے اور وہ اس خدشہ کا شکار ہیں کہ اردگرد کی قومیں متوجہ اور بیدار ہوں گی اور طاغوتی نظام کے خلاف آواز اٹھائیں گی۔

چار عشرے گزر جانے کے بعد بھی تمام خطہ انقلاب اسلامی ایران کے زیرِاثر ہے۔ آج کئی عرب ممالک نے فلسطینی عوام کو ان کی جدوجہدِ آزادی میں تنہاء چھوڑ دیا ہے، اس کے باوجود یہ لوگ مزاحمت کے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ پابرہنہ یمنیوں نے اسی انقلابی طاقت کو ہتھیار بنا کر سعودی عرب کے حملوں کو تقریباً چھے سال سے روکا ہوا ہے، جبکہ سعودی عرب کو تمام سپرپاورز کی پشت پناہی اور دفاعی امداد بھی میسر ہے۔ اسی انقلاب نے لبنانیوں کو ایک امید بخشی اور انہوں نے بڑی قربانی کے بعد اسرائیل کو اپنی سرزمین سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہی وہ امید تھی جس نے شام کی محدود قوم کو ایک عالمگیر فتنہ کے خلاف متحد کیا اور 80 ممالک سے بھیجے گئے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ صدام کے تیس سالہ اقتدار کے بعد اسی انقلاب نے عراقی عوام میں مجاہدت و آزادی کی وہ امنگ پیدا کی کہ ایک بلند پایہ فقیہ کے فتویٰ پر شیعہ سنی نے مل کر داعش کے فتنہ کو ختم کیا۔ آج امریکہ اس خطہ میں اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔

یہ بات انتہائی قابلِ ستائش ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام مستعار نہیں بلکہ صحت، بنکاری کے نظام اور ثقافت بھی اس کی اپنی ہے۔ یہ پہلا اسلامی ملک ہے، جو ایٹمی طاقت نہ ہونے کے باوجود دفاعی صلاحیت میں اپنی مثال آپ ہے۔ کتنے ہی ایسے چھوٹے گروہ تھے، جنہوں نے اللہ پر اعتماد کیا اور بڑے بڑے گروہوں پر غالب ہوئے اور اللہ نے انہیں کامیابی عطا کی۔ انقلاب اسلامی ایران میں بھی یہی پیغام پوشیدہ ہے، ایسا پیغام کہ جس نے دنیا کے مستضعف ترین لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا درس دیا اور اللہ پر توکل کرنے کو کامیابی کی کنجی قرار دیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .