حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج ہم سفر کے متعلق چند شرعی مشکلوں کی جانب اشارہ کریں گے کیونکہ سفر کے متعلق زیادہ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔
بعض افراد سوال کرتے ہیں کہ اصلی وطن اور وطن دوّم کہاں ہوتے ہیں اور کتنے وطن ہو سکتے ہیں اور ان میں نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟
آج الحمداللہ لوگوں کے پاس مالی وسائل زیادہ ہیں اور ان کے مختلف شہروں میں گھر ہوتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ ان شہروں میں روزہ رکھ سکتے ہیں اور نماز پوری پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟۔
تو ان کے جواب میں عرض ہے کہ تمام مراجع تقلید کہتے ہیں کہ انسان کے دو سے زیادہ وطن ہو سکتے ہیں لیکن امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) اور آیت اللہ شبیری زنجانی کہتے ہیں کہ انسان کے دو سے زیادہ وطن نہیں ہوسکتے۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ دوسرے شہر میں گھر کو انسان وطن دوم کے طور پر انتخاب کر سکتا ہے یا نہیں؟
ضروری نہیں ہے کہ انسان پورے سال اپنے وطن میں رہے اور وطن دوم وہ جگہ بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں انسان سال کا کچھ حصہ گزارے مثلا اگر تین یا چار مہینے انسان وطن دوم میں رہے تو وہاں اس کی نماز کامل ہوگی اور اگر ماہ رمضان ہو تو وہاں روزہ بھی رکھے گا لیکن امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ہے کہ انسان وہاں چھ مہینے رہے تاکہ اس کا وطن دوم حساب ہو۔
دوسرا قابل توجہ نکتہ کہ جس کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں کہ وطن دوم میں تین، چار ماہ سکونت مسلسل ہونی چاہیے مثلا جنوری سے اپریل تک وہاں مسلسل رہے اور اس کا ارادہ ہو کہ وہ آخر عمر تک اس طرح کرے گا یعنی ہر سال تین، چار مہینے یا اس سے زیادہ وہ وہاں آ کر رہے گا تو اس صورت میں وہ اس کا وطن دوم شمار ہوگا۔
دیگر مراجع تقلید جیسے آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ سید علی سیستانی فرماتے ہیں کہ تین، چار مہینوں میں مسلسل رہنا ضروری نہیں ہے اگر انسان مختلف مواقع میں وہاں جا کر رہے کہ جس کی کل تعداد تین یا چار مہینے بنتی ہو تو اس صورت میں بھی وہاں پر اس کی نماز کامل اور روزہ صحیح ہوگا۔ اگرچہ وہاں ایک دن کے لئے ہی کیوں نہ جائے کہ اس ایک دن وہ نماز پوری پڑھے گا اور اگر ماہ رمضان ہو تو روزہ بھی رکھے گا۔
اس سلسلے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ بعض جگہیں نہ وطن اصلی ہوتی ہیں اور نہ وطن دوم بلکہ انسان کی عارضی اقامت گاہ ہوتی ہیں۔ مثلا ایک شخص جو کسی شہر میں ملازمت کرتا ہے یا ایک عالم دین کسی شہر میں امام جمعہ ہے اور معلوم ہے کہ وہ زندگی بھر وہ وہ وہاں نہیں رہیں گے۔
عارضی اقامت گاہ کے بھی احکام ہیں جن کے لیے مراجع تقلید کے توضیح المسائل کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ یہاں پر صرف ایک حکم کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جس پر تمام مراجع تقلید کا اتفاق ہے اور وہ یہ ہے کہ عارضی اقامت گاہ میں اگر انسان کو ڈیڑھ یا دو سال سے زیادہ رہنا ہو تو اسے "وطن حکمی" کہا جائے گا (یعنی وہ جگہ حقیقی وطن نہیں ہے بلکہ وطن کے حکم میں ہے) تو وہاں پر نماز کامل اور روزہ صحیح ہے۔ اگرچہ وہاں دس دن رہنے کا قصد بھی نہ ہو لیکن جب بھی انسان وہ اسے اپنا سامان اٹھا کر دوسری جگہ چلا جائے تو وہ جگہ اس کی وطن نہیں ہوگی اور اب جب بھی وہ وہاں جاۓ گا تو وہاں اس کی نماز قصر ہو گی اور روزہ رکھنا صحیح نہیں ہو گا۔