۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
جامعۃالنجف اسکردو

حوزہ/ بیسویں صدی عیسوی کے مجدد قرن اور اسلام کے بطل جلیل آیۃ اللہ العظمیٰ امام خمینی ؒ کی ۳۲ ویں برسی کی مناسبت سے جامعۃالنجف اسکردو میں ایک عظیم الشان تقریب منعقد ہوئی جس میں بلتستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء ،دانشوروں اور شخصیات نے شرکت کی اور سب نے امام خمینی ؒ کی جامع الصفات شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بیسویں صدی عیسوی کے مجدد قرن اور اسلام کے بطل جلیل آیۃ اللہ العظمیٰ امام خمینیؒ کی ۳۲ ویں برسی کی مناسبت سے جامعۃالنجف اسکردو میں ایک عظیم الشان تقریب منعقد ہوئی جس میں بلتستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء ،دانشوروں اور شخصیات نے شرکت کی اور سب نے امام خمینی ؒ کی جامع الصفات شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا۔ 

اس تقریب کے سامعین میں علماء وطلاب کی بڑی تعداد نے شرکت کی. تقریب کی صدارت جامعۃالنجف کے پرنسپل علامہ شیخ محمد علی توحیدی نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں جناب مولانا مفتی خالد محمود مذہبی سکالر اہل سنت  اور نوربخشی دانشور پروفیسر ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر شامل تھے۔

ناظم جلسہ جناب شیخ احمد علی نوری نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ امام خمینی ؒ نے اسلام کو کامیاب انفرادی ،اجتماعی، سیاسی اور معاشرتی نظام کے طورپر نافذ کرکے دنیا کے نظاموں میں اسلام کا بول بالا کیا۔ 

جامعہ ہذا کے استاد قرآن جناب قاری محمد عابدین نے تلاوت کلام مجید سے محفل کا آغاز کیا۔ سینئر طالب علم سید امتیاز حسینی نے نعت رسول مقبول سے محفل کو منور کیا۔ جامعۃ النجف کے سینئر طالب علم وجاہت علی نجفی نے امام خمینیؒ کی سیرت کے بارے میں کہا: کہ امام خمینی ؒ نے اسلام کی تعلیمات کا احیاء کیا ، عالمی سطح پر مسلمانوں کی عزت کو بحال کیا، مسلمانوں کو امت مسلمہ ہونے کا احساس دلایا ، ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت اور استعمار کی کاسہ لیس حکومت کا خاتمہ کرکے ایران کو اسلام کا قلعہ بنایا۔ عالمی سطح پر اسلامی نظریاتی تحریک کا آغاز کیا ، استعماری طاقتوں کے خلاف عالمگیر مہم شروع کی، نظریہ ولایت فقیہ کے مطابق اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور اسلامی فقہ کے جدید پہلوؤں کو اجاگر کیا۔

جامعہ نجف کے طالب علم اور معروف بلتی شاعر زہیر کربلائی نے امام خمینیؒ کی شان میں بلتی زبان میں اپنے تازہ اشعار پیش کرکے خوب داد تحسین وصول کیا۔ 

نمونہ کلام:

موسسہ القائم پاکستان کے بانی جناب حجۃ الاسلام شیخ محمد علی صالحی شگری نے امام خمینیؒ کے کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا  کہ امام خمینیؒ ایک عظیم دشمن شناس تھے کیونکہ جو شخص جتنا دین شناس ہوگا اتنا ہی وہ دشمن شناس ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی ،اقتصادی اور ثقافتی محاذ دشمن کی نظر میں سب سے اہم محاذ ہیں جنہیں امام خمینیؒ نے نہ صرف پہچانا بلکہ ان تمام میدانوں میں آپ دشمنوں کے لئے زبردست چیلنچ  بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ استعماری وشیطانی طاقتوں نے تعلیم ،اقتصادیات اور ثقافت کے میدانوں میں عالم اسلام کو یرغمال بنا رکھاہے لیکن خمینیؒ بت شکن نے ان زنجیروں کو توڑ نے کا سلیقہ سکھایا ہے۔

نوربخشی دانشور پروفیسر ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ رسول اللہ کے عاشق لوگ وہ ہیں جو باطل کے لیے سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں اور امام خمینی ؒ ایسے ہی تھے۔ ہوحلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق وباطل ہو تو فولا دہے مومن

انہوں نے کہا امام خمینیؒ  علم کے اعلیٰ درجات کے حصول کو کافی نہیں سمجھتے تھےبلکہ تہذیب نفس سے عاری علم کو حجاب اور نقصان دہ سمجھتے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر ذاکر نے امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کو سراہتے ہوئے کہا کہ موصوف نے دین وسیاست کی جدائی کے طلسم کوتوڑ دیا اور یہ درس دیا کہ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ انہوں نے کہا کہ انکار باطل کی جرات رندانہ امام خمینی ؒ کی سب سے نمایاں صفت تھی۔ 

بلتستان کے معروف شاعر،ادیب ،موٹی ویٹر اور مصنف ومولف جناب احسان علی دانش نے امام خمینیؒ کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ 

نمونہ کلام: تیرہ شبی میں حسن ِ سحر بن کے آگئے وہ آگئے تو شَمس وقمر بن کے آگئے

یادرہے کہ احسان علی دانش صاحب کئی سفرناموں کے مصنف ہیں جن میں سے ایک سفر نامہ امام خمینیؒ کے احوال پر مشتمل ہے ۔

معروف عالم ،دانشور،مفکر ،استاد اور مصنف علامہ شیخ سجاد حسین مفتی نے امام خمینیؒ اور عرفان کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ کو عام طورپر ایک فقیہ، مجتہد،  انقلابی عالم اور حکمران کے طورپر پہچانا جاتاہے لیکن ان کے علاوہ وہ ایک عظیم عارف بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ حصول علم کے ذرائع مختلف ہیں جن میں مادی تجربیات اور عقل کے علاوہ دین ،وحی ،اشراق، شہود وغیرہ  بھی شامل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اہل دل اور عرفا کے ہاں جس قدر دل کثافتوں سے پاک ہوگا حقائق کو منعکس کرنے کی طاقت زیادہ ہو گی۔ تجلیات قلبی کے ذریعے بهی آدمی ذریے سے کہکشان تک اور مخلوق سے خالق تک پہنچ سکتا ہے اور اسی کو عرفان کہتے ہیں۔ اس کے برعکس فلسفی حضرات عقل کو حقائق کا آئینہ سمجھتے ہیں اور قلبی وارداتوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ادھر عظیم فلسفی اور عارف ملاصدرا نے کہا کہ عقل اور دل حریف نہیں بلکہ حلیف ہیں فلسفہ اور عرفان دونوں حقیقت تک رسائی کا ذریعہ ہیں. اسے حکمت متعالیہ کہتے ہیں ۔ امام خمینیؒ ملاصدرا کی روش کو مانتے تھے وہ عقل ودل دونوں کو آئینہ سمجھتے تھے.امام خمینیؒ نے اپنے تمام تر علم وعرفان کو سیاسی،اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی اور معاشرتی میدانوں میں دکھی انسانیت اور مظلوموں کی نجات کا ذریعہ بنایا. 

برادران اہل سنت کے معروف عالم ،مفتی ،دانشور اور خطیب  جناب مولانا مفتی خالد محمود نے امام خمینیؒ اور وحدت اسلامی کے موضوع پر خطاب میں فرمایا کہ قرآن کریم نے تمام مسلمانوں کو متحد ہو کر نیز اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اور آپس میں مہربان رہتے ہوئے عالم کفر کے مقابلے میں متحد ہونے کا صریح حکم دیا ہے۔ انہوں نے اس محفل میں دعوت پر منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس قسم کے دینی مدارس چلانے والے رسول اللہ کے مشن کے وارث ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ علمائے ربانی مدارس سے پیداہوتے ہیں اور نیک علماء کی تربیت صدقہ جاریہ ہے۔ دین ان سے سیکھنا چاہیے جنہوں نے دین سیکھا ہو ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے اسلام کو دین غالب بنایا ہے اور غالب آنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان رحماء بینہم اور اشداء علی الکفار کا مظہر ہوں۔ لیکن افسوس کہ آج یہود ونصاریٰ مسلمانوں کو لڑارہے ہیں۔ امام خمینیؒ نے اسی لئے فرمایا کہ شیعہ وسنی کو لڑانے والے نہ شیعہ ہیں نہ سنی بلکہ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نام نہاد علماء اور دانشور وں کی شکل میں مسلمانوں کو لڑانے والے اسلام کے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کی پسماندگی کی دو وجوہات ہیں ۱۔ اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی ۲۔ باہمی افتراق.اسلام کا اجتماعی نظام ہمیں ایک دوسرے کی تکفیر کی اجازت نہیں دیتا نیز مسلمانوں کے درمیان اتفاق واتحاد کا فروغ نماز روزے سے بھی اہم ہے۔ انہوں نے مفتی تقی عثمانی صاحب کا یہ تبصرہ نقل کیا کہ بلتستان میں مسلمان فرقوں کے علماء کے برادرانہ تعلقات نہ صرف قابل تعریف بلکہ قابل تقلید ہیں۔ 

اس تقریب کے صدر علامہ شیخ محمد علی توحیدی نے اپنے خطاب میں خمینی شناسی کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا :کہ کوئی بھی بہترین چیز بنانے کے لئے بہترین نمونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم بہترین انسان بننا اور بنانا چاہتے ہیں تو یقیناً عصرِ حاضر کے انسانوں میں انسان سازی کا بہترین اور کامل نمونہ امام خمینیؒ ہیں۔وہ کامل تھا اور ہم ناقص ہیں ۔ ظاہر ہے کہ نا قص کے نقص کو برطرف کرنے کے لئے کسی کامل کی ضرورت ہو گی۔اس کی عملی وعلمی سیرت و کردار کو نمونۂ عمل بنا کر ہم بھی خدا سے نزدیک ہونے کا سلیقہ سیکھ سکتے ہیں۔ وہ عالمِ ربانی تھا اور معرفت نفس کے عالی ترین درجے پر فائز۔ظاہر ہے اس کی سیرت پر عمل ہمارا ہاتھ تھام کر ہمیں بھی آدمیت کے بلند درجات پر فائز کر سکتا ہے۔ہم احساس کمتری میں مبتلا ہیں جبکہ وہ سپر طاقتوں کو بھی خاطر میں نہ لانے والا بوریا نشین تھا ۔ اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم بھی’’خاکی ہے مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند ‘‘کا مصداق بن سکتے ہیں۔وہ کوہ استقامت تھا اور ہم متزلزل ہیں۔ اس کی استقامت کے اسرار و رموز سے آشنائی ہمارے وجود کومعنوی زلزلوں سے محفوظ بنا سکتی ہے۔وہ دشمن شناس تھا۔اس نےآج سے بہت عرصہ پہلے جن دشمنوں کی نشاندہی کی تھی انہیں  امت مسلمہ  آج پہچاننے لگی ہے۔  خمینی نے سپر طاقتوں کے غبارے سے ہوا نکال دی اور حق کی سُپرمیسی کو عیاں کیا ۔ اس نے فرقہ پرستی کے جن کو قید کر کے ایران کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔آئیے اس تابندہ فکر کو عام کرکے عالم اسلام کو موجودہ بحرانوں کے گرداب سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ روح اللہ نےیہ ثابت کیا کہ جب معصوم انبیاؑ اور ائمہؑ کا ایک غیر معصوم شاگرد اتنا بڑااسلامی و انسانی انقلاب برپا کر سکتا ہے تو بارہویں معصوم حجت خدا کا انقلاب کس قدر جامع و کامل ہو گا ۔آج ہمیں ہمیشہ سے زیادہ اللہ کی اس محیر العقول آیت یا نشانی کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہمیں اس نسخہ کیمیا کی شناخت کی حاجت ہے تاکہ ہم اور ہمارے بعد کی نسلیں ایک عالمگیر ،عادلانہ،فلاحی ،انسانی ،قرآنی اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔خمینی صرف شیعوں یا مسلمانوں کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے حق پرستوں،مظلوموں اور ظلم ستیزوں کا ساتھی،رہنما سہارا اور ان سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ اس ہستی کی شناخت وقت کی ضرورت ہے۔ اس کی شناخت حق کی شناخت ہے، راہ حریت کی شناخت ہے ، راہ نجات کی شناخت ہے،انسانیت کی شناخت ہے،فلسفۂ خودی کی شناخت ہے،اسلام اور انسانیت کے دوستوں اور دشمنوں کی شناخت ہے ،قرآن و سنت کی شناخت ہےاور دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کے نسخۂ گراں بہا کی شناخت ہے۔

 آخر میں  اس تقریب کےصدر محفل  نےدعائیہ اور اختتامی کلمات کا اظہار کرتے ہوئے تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نےامام خمینی ؒ کے روح کی بلندی، تعجیل ظہور امام زمانہؑ، پرچم اسلام کی سربلندی اور استحکام پاکستان کے لیے خصوصی دعاکی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .