۱۸ آذر ۱۴۰۳ |۶ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 8, 2024
ٹیٹو

حوزہ/ اگر ٹیٹو جلد کے نیچے ہے تو، اس سے وضو یا غسل کی درستگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے [اس سے باطل نہیں ہوتا ہے] اور [ٹیٹو] اپنے آپ میں حرام نہیں ہے، جب تک کہ یہ باطل یا حرام فعل کو فروغ نہیں دیتا ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے گروہ مترجمین کے مطابق، نجف اشرف کے مراجع تقلید میں سے ایک، حضرت آیت اللہ محمد اسحاق فیاض نے اس شخص کے وضو اور نماز کے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا ، جس کے جسم پر ٹیٹوز اور نقاشی یا بت پرستی کی علامت ہو۔

نجف اشرف میں معظم لہ کے دفتر سے پوچھے گئے سوال کا متن مندرجہ ذیل ہے:

دفتر آیت اللہ شیخ محمد فیاض

سلام علیکم

سوال: نماز اور وضو کے سلسلے میں ، ٹیٹو کا کیا حکم ہے ، اور اگر ٹیٹو میں شخصیتوں کی نقاشی ہو، یا بت پرستی کرنے والے کرداروں یا بت پرستی کی علامتوں اور دیگر چیزوں کی نقاشی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
کیا یہ حرام ہے؟

جواب:

بسمہ تعالی

اگر ٹیٹو جلد کے نیچے ہے تو ، اس سے وضو یا غسل کی درستگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے [اس سے باطل نہیں ہوتا ہے] اور [ٹیٹو] اپنے آپ میں حرام نہیں ہے، جب تک کہ یہ باطل یا حرام فعل کو فروغ نہیں دیتا ہو۔
۱۱ ذی القعده ۱۴۴۲ هجری قمری

ضمنا قابل ذکر ہے کہ بقیہ مراجع من جملہ آقای سیستانی اور مقام معظم رہبری آقای خامنہ ای دام ظلہم کے نزدیک بھی ٹیٹو بہ ذات خود حرام نہیں ہے اور نہ ہی وضو یا غسل میں رکاوٹ ہے، لیکن اگر ترویج باطل، یا حرام کاری کا سبب ہو تو حرام ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • حسن صادق DE 18:12 - 2024/11/11
    0 0
    ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ مفید پوسٹ سیکھنے کو مل رہا ہے لیکن لیکن ہر مسئلے کے نیچے ایڈریس ضرور لکھے