کاوش: مولانا علی اختر ہندی اصفہانی
حوزہ نیوز ایجنسی। مسئلہ نجات عالم بشریت کا سب سےاہم ترین مسئلہ ہے اور دنیا کا ہر شخص نجات پانے کےلئے ہر طرح کی کوششیں کرتا رہتا ہے یا یوں کہوں کہ مسئلہ نجات ایک ایسی حقیقت کا نام ہے جس کی ہر کوئی آرزو کرتا ہے اور نوع بشریت کے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ گھومتا رہتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد کس طرح نجات پائے گا؟۔
جہاں تک ہندو دہرم کی بات کی جائے تو دنیا کا قدیم ترین مذہب مانا جاتا ہے جس کے پیروکار ابھی بھی موجود ہیں اور اس دہرم کے پیروکار کو سناتن دھرم (सनातन धर्म) ، کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ہندو دھرم میں دین الهی کی طرح پیامبران الہی نہیں ہوتے ہیں اسی وجہ سے کسی نبی اور خدائی نمایندے کا نام واضح طور پر بیان نہیں ہوا ہے:
اسی وجہ سے آج ہم اپنی اس چھوٹی سی کاوش میں دین اسلام اور دین سناتن میں نجات کے راستے کو اپنے قارئین کی خدمت میں بیان کر رہے ہیں کیوں کہ ان دونوں مذاہب میں مسئلہ نجات کو بہت ہی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ میں امید کرتا ہوں آپ میری اس ناچیز کاوش سے لطف اندوز ہونگے۔
دین اسلام ان ادیان الہی میں سے ہے جس میں لوگوں کو نجات کا راستہ دکھلانے کےلئے خداوند متعال نے اپنے بہت سے نمائندے زمین پر بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو راہ نجات دکھا سکیں اور ان کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ لوگوں کو توحید کے ذریعہ نجات دلا سکیں۔ ویسے تو اسلام میں نجات کے بہت سارے راستے ہیں لیکن ہم بہت اختصار کے ساتھ سب سے اہم اسباب کو بیان کریں گے:
الف) توحید:
اس کائنات کا خالق اصلی خداوند مطلق ہے اور خداوند واجب الوجود ہے یعنی خدا کا وجود اصلی اور دائمی ہے خدا کے علاوہ سب فانی ہیں اور جب ہمیں اس بات کا علم ہوگیا کہ خدا ہی سب کچھ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ہم صرف خدا کی ہی عبادت کریں گے اور کسی دوسرے کی عبادت کرنا گناہان کبیرہ میں سے ہوجائے گا پھر اس کے بعد ہم کبھی بھی نجات نہیں پا سکیں گے۔
جیسا کہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
قل الله ینجیکم منها و من کل کرب۔ اے پیغمبر ان لوگوں سے کہ دیجئے کہ خدا ہی ہے جو تمہیں اندھیروں اور مصیبت سے نجات دلاتا ہے(سورہ انعام آیہ64)
ب) قرآن و اہل بیت علیہم السلام
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جب وقت آخر آیا تو ارشاد فرمایا: قریب ہے میں بلایا جاؤں اور مجھے جانا پڑے، میں تم لوگوں کے درمیان دو گرانقدرچیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک خداکی کتاب اور دوسری میری عترت" کتابِ خدا تو ایک رسی ھےجو آسمان سےزمین تک دراز ہے او ر ایک میری عترت میرے اہلبیت ہیں۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچیں گے۔
اس حدیث نورانی میں پیغمبر اسلام اس بات کی طرف روشنی ڈال رہے ہیں کہ جس طرح قرآن مجید نجات کا سبب ہے بالکل اسی طرح ہمارے اہل بیت علیہم السلام بھی ہیں جو قرآن کا ہم پلہ ہیں اور نجات کے اسباب میں سے ایک سبب ہیں۔
ج) تزکیہ نفس:
اسلام میں تزکیہ نفس یعنی اپنے نفس کو پاک رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کیوں کہ اگر کسی کا نفس تاریکی اور ظلمت سے بھرا ہوا ہوگا تو وہ کبھی بھی حقیقت کو درک نہیں کر سکتا اور جس کے اندر حق کی شناخت نہ ہو وہ کبھی بھی نجات پا نہیں سکتا کیوں کہ خداوند متعال اپنی سب سے محبوب کتاب میں ارشاد فرمارہا ہے: "قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّئهَا" جو کوئی اپنے نفس کو پاک و پاکیزہ رکھے گا اسے نجات ضرور ملے گی،(شمس آیہ 9) ۔
آئین ہندو: ہندو دہرم میں بھی نجات کے بہت سارے راستے بیان ہوئے ہیں لیکن ہندوؤں کی مشہور و معروف کتاب، بہکتی گیتا میں لوگوں کو تین راستوں پر چلنے کے لئے ہدایت دی گئی ہے اور وہ تین راستے یہ ہیں:
ایک راہ عمل (Karma yoga):
بھکتی گیتا کی تیسری فصل میں بیان ہوا ہے جو کام خدا کی خوشنودی کے بغیر انجام دیاگیا ہو وہ مصیبت اور رنج کے سوا کچھ نہیں ہے اور جو کچھ بھی تم انجام دیتے ہو اسکا اثر بعد میں ضرور نظر آئے گا، اگر تمہارا عمل اچھا ہے تو جتنا اچھا کام کیا ہے مرنے کے بعد اتنی دیر ہی بہشت میں رہوگے اور جتنا بھی برا عمل کیا ہوگا اتنی دیر ہی جہنم میں زندگی گذارنی پڑے گی ۔پھر مہلت کے ختم ہوتے ہی دوبارہ دنیا میں بھیجے جاؤگے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک تم پورے طریقہ سے پاک اور خالص نہیں ہوجاتے پھر تمہیں آخر میں موکشہ(مکتی) حاصل ہوگا۔
دوسری راہ علم: گیتا کی ساتویں فصل میں کچھ اسطرح سے بیان ہوا ہے: جو کچھ تم اس دنیا میں دیکھ رہے ہو وہ سب خدا کا ہے اسی وجہ سے تمام حمد و ستایس صرف خدا سے ہی مخصوص ہے ، فصل کے آخر میں بیان ہوا ہے کہ کریشنا نے ارجون سے کہا:
اس عالم کی ابتداء اور انتہا میں ہوں، میرے علاوہ کوئی بھی چیز حقیقت نہیں، یہ کائنات میرے حکم سے چلتی ہے، پانی کی میٹھاس میں ہوں، خورشید کی روشنائی میں ہوں اور لفظ" اوم" کا مصداق صرف میں ہی ہوں۔
تیسری راہ عشق و معرفت: (Bhakti Yoga)
بھکتی کو سنسکریت زبان میں محبت اور عشق کہتے ہیں۔
بھکتی گیتا میں تیسری قسم کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے کیوں کہ خداوند عالم سے ہی عشق خالص رکھنے کا حکم دیا گیا ہے یعنی صرف خدا سے ہی عشق کرو، جیسا کہ بھکتی گیتا کی بارہویں فصل میں بیان ہوا ہے:جس کسی نے بھی ہم سے لو لگائی اور پورے ایمان کے ساتھ میری عبادت کرے گا تو وہ یقینا "یوگا" سے افضل ہے۔
ان تینوں راستوں سے نجات(موکشہ) حاصل ہوتا ہے موکشہ یعنی زندگی دنیاوی سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا یعنی مرگ و زندگی سے اوپر اٹھ جانا اس کو سنسارہ کہاجاتا ہے اس مقام پر انسان اپنے خالق حقیقی اور حقیقت نہائی سے متصل ہوجاتا ہے۔
اور اس بات کو جان لینا بہت ضروری ہے کہ ہندو دہرم میں ہم موکشہ کیسے حاصل کریں اوپر بیان کیے گئے تین راستوں کو کریشنا نے ارجون کو باخبر کیا تھا۔
امید ہے قارئین کو پسند آیا ہوگا انشاءاللہ پھر ملیں گے اگلے مقالہ کے ساتھ۔ والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔