۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
قم المقدسہ؛ شہادت علی بن موسیٰ الرضاؑ کے سلسلے سے مجلس عزا

حوزہ/ امام علی بن موسی الرضا نے دس سال امامت کی مدت ہارون کے دور میں گذاری یہ دس سال کی مدت آٹھویں امام جو ہارون کے ظلم وستم اور گھٹن کے دور میں گذارے تو یہ علمی اور ثقافتی کاموں اور کوششوں کے لئے نسبتا آزادی کا دور تھا اس لئے کہ اس موقع پر ہارون رشید آٹھویں امام کے لئے رکاوٹ کا سبب نہیں بن پایا اسی وجہ سے آزادی کے ساتھ امام کاموں میں مشغول تھے اس بنا پر امام نے زیادہ تر اس دور میں شاگردوں کی تربیت اور قرآن مجید سے تعلیمات کو اخذ کرکے اسلامی حقائق کو پیش کیا

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سال گزشتہ کی طرح امسال بھی قرآن وعترت فاونڈیشن کی جانب سے ٢٩ صفر سے ٨ ربیع الاول تک مجالس کا اہتمام ہوا، قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم،ایران  کی جانب سے آجکی دوسری مجلس کو خطاب کیا، بہترین مبلغ اسلام حجۃ الاسلام والمسلیمن مولانا سید محمد میاں عابدی لکھنوی قبلہ وکعبہ نے۔مولانا موصوف نے اپنی تقریر میں بھرپور علمی مطالب پیش کئے۔

قم المقدسہ؛ شہادت علی بن موسیٰ الرضاؑ کے سلسلے سے مجلس عزا

مجالس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، بعدہ بہترین انداز میں مرثیہ خونی کے فرایض انجام دئے کشمیر سے تعلق رکھنے والے محترم جناب مولانا مختار اور آپکے ہمنوانے،اسکے بعد امام رضاؑ کی شان میں بہترین کلام کو پیش کیا مولانا ضیغم بارہ بنکوی نے۔

قم المقدسہ؛ شہادت علی بن موسیٰ الرضاؑ کے سلسلے سے مجلس عزا

اس موقع پر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی بانی قرآن و عترت فاونڈیشن نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٣٠صفر کو سر زمین ایران میں آٹھویں امام کی شہادت پر تمام مومنین پورے شہروں میں سیاہ لباس پہنے ہوئے ماتم و نوحہ و مجالس کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ سرزمین ہندوستان میں اس دن کے بجائے دیگر مہینہ میں مولا کا غم منایا جاتا ہے۔

قم المقدسہ؛ شہادت علی بن موسیٰ الرضاؑ کے سلسلے سے مجلس عزا

آپ نے آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی سوانح عمری کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'امامؑ'١١''ذی القعدہ سنہ ١٤٨ ہجری کو عراق کے شہر سامرہ میں پیدا ہوئے ،آپ کے والد امام موسی کاظم تھے اور آپ کی مادر گرامی کا نام ''تکتم''تھا جسے ساتویں امام نے آٹھویں امام کی ولادت کے بعد بدل کر طاہرہ کر دیا ،آپ کی کنیت ''ابو الحسن '' اور لقب ''رضا 'ہے آپ نے اپنے والد گرامی کی بغداد کے زندان میں شہادت کے بعد سنہ ١٨٣ ہجری ٣٥ سال کی عمر میں امامت اورامت کی رہبری کی ذمہ داری سنبھالی اور خدمات انجام دئے آپکے ہم عصر خلفاء :  آپ کی امامت کل بیس سال تھی جس مین سے دس سال ہارون رشید کی خلافت کے دور میں گذارے اور پانچ سال محمد امین کی خلافت کے دور میں اور آخر ی پانچ سال عبد اللہ مامون کی خلافت کے دور میں گذارے۔

اصول کافی ،حضرت کلینی،ج١ص٤٨٦ ،الارشاد شیخ مفید،ص٣٠٤.کے نقل کے مطابق امام علیہ السلام مامون کی خلافت کے شروع تک اپنے وطن مدینہ شہر میں مقیم تھے لیکن مامون نے حکومت حاصل کرنے کے بعد آپ کو خراسان آنے کی دعوت دی اور آخر آپ ماہ صفر میں سنہ ٢٠٣ ہجری میں ٥٥ سال کی عمر میں شہید ہوئے اور اس شہر میں مدفون ہوئے آٹھویں امام ہارون کے دربار میں :٨٣ ١ ہجری کے بعد سے کہ جب ساتویں امام کو ہارون کے حکم سے زہر دیا گیا اور آپ بغداد کے زندان میں شہید کر دئے گئے تو امام علی بن موسی الرضا نے دس سال امامت کی مدت ہارون کے دور میں گذاری یہ دس سال کی مدت آٹھویں امام جو ہارون کے ظلم وستم اور گھٹن کے دور میں گذارے تو یہ علمی اور ثقافتی کاموں اور کوششوں کے لئے نسبتا آزادی کا دور تھا اس لئے کہ اس موقع پر ہارون رشید آٹھویں امام کے لئے رکاوٹ کا سبب نہیں بن پایا اسی وجہ سے آزادی کے ساتھ امام کاموں میں مشغول تھے اس بنا پر امام نے زیادہ تر اس دور میں شاگردوں کی تربیت اور قرآن مجید سے تعلیمات کو اخذ کرکے اسلامی حقائق کو پیش کیا آٹھویں امام پر ہارون کی طرف سے دبائو میں کمی شاید اس وجہ سے ہو کہ وہ ساتویں امام موسی کاظم  کے قتل کے پیچھے بہت فکر مند تھا اگرچہ اس نے اپنے جرم کو چھپانے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں لیکن آخر کار یہ راز کھل گیا اور لوگوں کی نفرت اور غصے کا سبب بنا ہارون یہ چاہتا تھا کہ خود کو اس جرم سے مخفی رکھے ہارون نے اس مطلب پر گواہ یہ بھی ہے کہ جبکہ آنحضرت کے جنازے کو ہارون کے ظلم کے عملہ سے لے کر احترام کے ساتھ دفن کیاگیاتو یہ پیغام بھی بھیجا کہ :''خدا سندی بن شاہک پر لعنت کرے اس نے بغیر میری اجازت کے یہ کام انجام دیا ہے،اور ہارون کا وہ جواب بھی اس مطلب کی تائید کرتا ہے جو اس نے آٹھویں امام کے متعلق یحیٰ بن خالد بر مکی کے سوال کے بعد دیا تھا جو پہلے بھی امام موسی کاظم کے خلاف بد گوئی اور بد کلامی کر چکا تھا اس نے ہارون سے کہا موسی بن جعفر کے بعد اب انکے بیٹے نے ان کی جگہ سنبھال لی ہے اور امامت کے دعویدار ہیں گویا کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ امام رضا  بھی خلیفہ کے زیر نظر رہیں ،ہارون جو کہ ابھی ساتویں امام کے قتل کو بھول نہیں پایا اور اس کے بارے میں فکرمند تھا جواب دیا میں نے جو کچھ ان کے والد ماجد کے ساتھ کیا وہ کیا کافی نہیں تھا جو تم یہ چاہتے ہو کہ ایک مرتبہ پھر تلوار اٹھا کر تمام علویوں کا قتل عام کر دوں ؟.اس واقعہ کے بعد تمام درباری ہارون کے غصے کو دیکھتے ہوئے خاموش ہوئے اور پھر جرائت نہ ہو پائی کہ آٹھویں امام کی شکایت کرسکیں امام علی رضا  ہارون کے دور میں اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کھلم کھلا اپنی امامت کا اظہار کرتے تھے اور اس سلسلے میں اپنے آبائو واجداد کی طرح تقیہ سے کام نہیں لیتے یہاں تک کہ آپ کے بعض مخلص افراد اور آپ کے چاہنے والے آپ کو اس کام سے روکتے تھے لیکن امام یقین دلاتے کہ ہارون کی طرف سے ابھی کوئی خطرہ نہیں پہونچ سکتا ،،اسی طرح عیون اخبار الرضا شیخ صدوق ج٢ص٢٢٦،کشف الغمة علی بن عیسی اردبیلی ،ج٣ص١٠٥)،صفوان بن یحیٰ کہتے ہیں :جب امام ابو ابراہیم موسی بن جعفر اس دنیا سے کوچ کر گئے اور حضرت علی بن موسی الرضا نے اپنی امامت کاظہار کر دیا تو لوگوں نے آپ سے کہا :آپ بہت عظیم اور خطرناک امر کا اظہار کر رہے ہیں اور ہم آپ کے متعلق اس ظالم ہارون سے ڈرتے ہیں تو پھر امام نے فرمایا : وہ جتنی بھی جد وجہد کر لے مجھے کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا اسی طرح محمد سنان نقل کرتے ہیں. (٧۔الروضة من الکافی ،کلینی،ص٢٥٧زندگی پیشوای امام ھشتم ،سید علی محقق ،ص٥٢،٥٩) کہ میں نے بھی ابو الحسن سے ہارون کی خلافت کے دور میں عرض کیا کہ آپ نے اپنی امامت اور خلافت کا جو اظہار فرمایا ہے ایسے موقع پر جب جبکہ ہارون کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے امام نے فرمایا مجھے پیغمبر کا یہ قول ہمت دیتا ہے کہ نبی اکرم (ص )نے فرمایا :کہ اگر میرے سر سے ایک بال بھی ابو جہل اکھاڑ سکے تو تم سمجھ لینا کہ میں پیغمبر نہیں ہوں تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اگر ہارون نے میرے سر سے ایک بال بھی اکھاڑ لیا تو سمجھ لینا کہ میں امام نہیں ہوں۔

مولانا موصوف نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت وہ بھی آیاکہ آٹھویں امامؑ مامون کے دربار میں آئے :مامون کی خلافت جب مستحکم ہوئی تو اس نے کی زندگی کا ورق پلٹا اور ایک نیا صفحہ کھولا یہ ایک ایسا صفحہ تھا کہ جسمیں امام  نے برسوں بہت زیادہ غم اور سنگین حالات میں گذارے خلافت کے غاصبوں چاہے بنی امیہ یا بنی عباس میں سے ہوں سب کو سب سے زیادہ وحشت خاندان امیر المومنین علی سے تھی کیونکہ انکے اندر ہر قسم کے فضائل ومناقب پائے جاتے تھے اور اچھا خاصہ طبقہ خلافت کو ان کاحق سمجھتا تھا یہی وہ وجہ تھی کہ خاندان علی بن ابی طالب کو ہمیشہ وقت کی حکومت کی جانب سے شکنجوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اورآخرانھیں کے ہاتھوں شہید بھی کر دئے جاتے تھے مامون (ظاہری( دیکھاواکے طورپر شیعت سے محبت کا اظہار کرتا اور چونکہ اسکی حکومت کو چلانے والے زیادہ تر افراد بھی ایرانی تھے اولاد علی اور شیعوں کے آئمہ معصومین سے خاص محبت اور لگائو رکھتے تھے لہذا وہ اپنے اجداد ہارون اورمنصورکی طرح امام کو قید خانہ میں نہیں ڈال سکتاتھا اس وجہ سے اس نے ایک نیا طریقہ اپنایا اگرچہ یہ کوئی نیاطریقہ نہیں تھا اس کا تجربہ گذشتہ دور میں بھی ہو چکا تھا بہرحال یہ پہلے کی نسبت زیادہ خوشنما اور بہت چالاک عباسی خلیفہ تھا مامون نے فیصلہ کیا کہ امام کے ساتھ دوستی اور محبت کی چال چلکر اپنی حکومت کے زیر نظر رکھا تاکہ آپ کے علمی کمالات سے فائدہ اٹھائے اور آپ کے تمام افعال کو مکمل طریقے سے دیکھتا رہے اورپھراپنی بے ڈھنگی رفتارمیں مامون ملوث ہوا۔

قم المقدسہ؛ شہادت علی بن موسیٰ الرضاؑ کے سلسلے سے مجلس عزا

درنتیجہ اصول کافی ،حضرت کلینی، ج ١ص ۴۸۶،الارشاد شیخ مفید،ص٣٠۴ کے مطابق جیساکہ نقل ہے کہ مامون نے حکومت حاصل کرنے کے بعد آپ کو خراسان آنے کی دعوت دی اور آخر آپ ماہ صفر میں سنہ ٢٠٣ ہجری میں ٥٥ سال کی عمر میں شہید ہوئے اور اس شہر میں مدفون ہوئے   خداوند عالم سے دعاہے ہم سبکو آٹھویں امام علی بن موسی الرضاعلیہ یہ السلام کی سیرت پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .