حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ کی مطابق،ولادت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے ہفتہ وحدت کے موقع پر ہندوستان کی عالمی شہرت یافتہ مایہ ناز علمی شخصیت مفسر قرآن کریم، ندوہ العلماء کے سابق شیخ الحدیث، مؤسس جامعہ سید احمد شہید لکھنؤ مولانا سید سلمان حسینی ندوی ایران کے سفر کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کے صحافی سے خصوصی گفتگو کی۔جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
سلام علیکم حضرت سب سے پہلے ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا، تو ہم اپنے سوالات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں، ہمارا سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ:
سوال: رہبر انقلاب اسلامی پوری مسلم امہ کو پیکر واحد سے تعبیر کرتے ہیں اس کے تعلق سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔
مولانا سلمان ندوی: دیکھئے! واقعا یہ ہے کہ قرآن اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ امت مسلمہ ایک متحد امت ہے۔ امت ریوڑ نہیں ہے یا امت ٹکڑوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ۔ جب اللہ کہہ رہا ہے جو احکم الحاکمین ہے کہ تمہاری امت ایک امت ہے تو کون ہوتا ہے جس نے امت کے ٹکڑے کردئیے، اس کو الگ الگ کردیا۔ قرآن ان کے بارے میں بھی یہ کہتا ہے کہ جن لوگوں نے امت کے ٹکڑے کردئیے اور اس کے فرقے بنادئے وہ سخت عذاب کا انتظار کریں۔
ان کو اللہ تعالی نے اس سے فتنہ نہیں بلکہ یہ کہا کہ إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ۔ جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا ہے، الگ الگ پارٹیاں بنادی ہیں۔ اے نبی! آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے رہبر انقلاب اسلامی جو بھی ہوگا ہر جگہ کا جو رہبر اسلامی ہوگا اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن پاک کے اس بیان کو امت کو سمجھائے اور امت کے درمیان اتحاد پیدا کرے اور جو تفرقہ پیدا ہوگیا ہے جب سے پیدا ہوا ہے اس کا ازالہ کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی وہی ہے جو امت کے درمیان اتحاد پیدا کرے
سوال: اگر بر صغیر پر نظر ڈالی جائے تو مسلمانوں کی سطح پر اتحاد کی اہمیت اور ضرورت پر کتنی توجہ ہے اور اس مسئلے میں نوجوان نسل کی کیا سوچ ہے؟
مولانا سلمان ندوی: دیکھئے! اتحاد ایک ضرورت ہے، اتحاد ہماری ملت کی اور امت کی نمائندگی کرنے والی حقیقت ہے، اتحاد قرآن کا مطالبہ ہے، حدیث نبوی کا مطالبہ ہے، نبی پاک نے یہی عمل فرمایا۔ آج بھی جب اتحاد کی دعوت دی جاتی ہے برصغیر میں دی جائے یادنیا کے کسی خطے میں دی جائے تو کچھ ایسے روایتی قسم کے لوگ ہیں جو فرقہ واریت برقرار رکھنا چاہتے ہیں ورنہ عام نوجوان طبقہ، مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا جو بڑا طبقہ ہے وہ اس کو اس کو appreciate کرتا ہے، اس کی پزیرائی کرتا ہے اس کو پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اتحاد پیدا ہو۔
اتحاد ہماری ملت کی اور امت کی نمائندگی کرنے والی حقیقت ہے !
سوال: وحدت اسلامی یعنی اسلام کے تمام فرقے ایک ساتھ پرامن زندگی بسر کریں، اس میں کہاں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، یہ رکاوٹیں عمدی ہیں یا نہیں، ان کو کیسے دور کیا جائے؟
مولانا سلمان ندوی: ایک رکاوٹ تو وہ ہے کہ اس امت میں جو ایسے افراد پیدا ہوئے جن کے اندر تشدد تھا یا عصبیت تھی یا ان کا ذہن تنگ تھا یا ان کے اندر قرآن کا اور سنت کا فہم نہیں تھا۔ انہوں نے فرقے پیدا کئے، انہوں نے جتھے بنادئیے، انہوں نے الگ الگ گروہ تیار کردلئے۔ یہ ان کا عمل رہا۔ ان کی شدت نے یعنی ایک شخص کھڑا ہوا اس نے ایک فرقہ بنالیا، ایک شخص اور کھڑا ہوا اس نے فرقہ بنا دیا، ایک عمل تو یہ ہوا۔ دوسری طرف ہمارا جو دشمن ہیں وہ یہ بات جانتا ہے کہ اگر متحد طاقت ہوگی تو اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے لیکن اگر ہم ان کو منتشر کر دیں، ان کے اندر جھگڑے، اعتقادی جھگڑے پیدا کردیں، فکری جھگڑے پیدا کردیں، مسلگی جھگڑے پیدا کردیں تو یہ خود ہی ٹوٹ جائیں گے تو Divide and rule کی جو پالیسی ہے «فَرِّقْ تَسُدْ» عربی میں اس کو کہتے ہیں کہ بھائی ان کو توڑ دو، ان کو بانٹ دو اور پھر ہاتھ میں قیادت لے لو۔ دشمن یہ کام کرتا رہا ہے۔ باہر سے دشمن کرتا ہے اور دشمن کے ایجنٹ ہمارے اندر یہ کام کرتے رہے۔ تو یہ دو طبقے ہیں جنہوں ےنے ہمیشہ افتراق پیدا کیا اور اتحاد کے راستے میں یہ رکاوٹ بنے رہے اب ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر آپ کو بڑے دیندار نظر آئیں گے، بڑے عالم نظر آئیں گے، کوئی عالم جلیل ہوگا، کوئی آیت اللہ ہوگا اور کوئی کیا اور کیا ہوگا لیکن وہ تفریق کا کام کرے گا، وہ شدت پیدا کرے گا، وہ ایسی شکل اختیار کرے گا جس کے نتیجہ میں جوڑ نہ پیدا ہوسکے۔ تو اس طرح کے وہ افراد جو اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے فرقہ بندیاں کی ہیں اور امت کو بانٹا ہے۔
افتراق باہر سے دشمن کرتا ہے اور دشمن کے ایجنٹ ہمارے اندر یہ کام کرتے ہیں!
سوال: اگر یہ مان لیا جائے کہ عالم اسلام متحد ہوگئے ہیں، تو دنیا کی کیا تصویر ہوگی اور اس میں عالم اسلام کی کیا حیثیت ہوگی؟
ممولانا سلمان ندوی: اگر امت متحد ہوجائے تو آپ یہ دیکھئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت سے دنیا میں بحیثیت نبی خاتم کے اور رسول اعظم کے سامنے آئے تو اس وقت عالمِ عربی کا جو حال تھا، مکہ مکرمہ کا اور پورے جزیرۃ العرب کا کہ قبائل ایک دوسرے سے جنگ کرتے تھے ذرا ذرا سی بات پر۔ کسی کا اونٹ آگے بڑھ گیا اور کسی کا گھوڑا آگے بڑھ گیا، کسی نے پانی پہلے لے لیا اور کسی نے کسی چیز میں سبقت حاصل کرلی، کسی نے بے عزتی محسوس کی تو وہ جنگ چھیڑ دیتا تھا اور ذرا ذرا سے اسباب پر جنگیں چالیس چالیس سال تک چلی ہیں۔ یہ تاریخ رہی ہے جاہلیت کی۔ اب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تاکہ پوری انسانیت کو جوڑ دیں اور انسانوں کو ہر طرح کے ظلم سے باہر نکالیں، آپس میں محبت پیدا کریں، اخوت پیدا کریں۔ تو آپ نے یہ کام پہلے مکہ مکرمہ میں انجام دیا۔ چھوٹے سے اقلیت تھی جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی اور مکہ کے کافروں اور مشرکوں نے ہر طرح کا ظلم کیا لیکن انہوں نے اس ظلم کو برداشت کیا اور صبر کا سہارا لیا۔پھر ہجرت ہوئی۔ اب مدینہ منورہ میں جب پہنچے ہیں تو "اوس اور خزرج" دو بڑے قبیلوں میں ایک طویل جنگ ہوچکی تھی اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت قبول کی گئی اور لوگ اسلام کے سایہ تلے آئے تو جو شرارت وہاں پر یہودی طبقات اور یہودی قبائل Divide and rule کی پالیسی کے تحت ایک عرصہ سے کررہے تھے وہ سیاست ناکام ہوگئی۔
اور مسلمان إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ تمام اہل اسلام بھائی بھائی ہیں، اس کا نمونہ بن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا آپ دیکھئے کہ جو کل بکریاں چراتے تھے، اونٹ چراتے تھے، جن کے پاس کسی طرح کا علم نہیں تھا نہ دنیا کا نہ دین کا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ایسی تربیت فرمائی اور ان کو ایسی تعلیم عطا فرمائی اور وہ ایسی متحدہ طاقت بن گئے کہ نہ صرف پورا جزیرۃ العرب دس لاکھ مربع میل کا علاقہ انہوں نے تھوڑی سی مدت میں فتح کرلیا یعنی ساڑھے سات سال میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور جب مکہ سن آٹھ ہجری میں فتح ہوا تو پورا ملک جو ہے اس طرح ٹوٹ کر سامنے آیا جیسے تسبیح کے دانے بکھر جاتے ہیں، جاہلیت کا خاتمہ ہوگیا اور سب اسلام میں داخل ہوگئے اور پھر تھوڑے ہی عرصہ میں عراق فتح ہوا، شام فتح ہوا، رومن ایمپائر کو فتح کیا گیا، پرشین ایمپائر کو فتح کیا گیا۔یہ اس طاقت کا نتیجہ تھا ۔
جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طاقت پیدا کی تھی مسلمانوں میں اور جو نبی کے فدا کار صحابہ تھے، جانثار صحابہ تھے ان کو ایسی تعلیم ملی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ایران میں جس وقت داخل ہوئے ہیں۔ پہلے دجلہ کو پار کرکے «دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے / بحرِ ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے»۔ جن لوگوں نے یہ کام کیا وہ جب داخل ہوئے ہیں اس علاقہ میں جہاں فارسی بولی جاتی تھی تو انہوں نے دیکھ کر حیرانی سے کہا "دیوھا آمدنددیوھا آمدند"ارے یہ تو جن آگئے یہ تو جن آگئے۔ تو واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی فتوحات کی دھاک بٹھا دی۔ آج بھی اگر واقعی صحیح طور پر ایران ہو یا کوئی بھی مسلم دنیا کا ملک ہو اگر یہ طے کرلے کہ ہمیں ہر حال میں اتحاد پیدا کرنا ہے اور بکھری ہوئی امت کو جوڑ دینا ہے تو دوبارہ وہ منظر سامنے آئے گا اور میں آپ کو یہ بتا دوں کہ جس طرح 1990ء میں سوویت یونین بکھر کے رہ گیا، اس کا پیٹ پھاڑ دیا گیا اور اس کے اندر سے ازبکستان و تاجکستان و قرقزستان یہ سب پیدا ہوئے امریکہ اسی طرح پھٹ جائے گا، ٹوٹ جائے گا، بکھر جائے گا اور اس کی جو اسٹیٹ ہے "یونائیٹڈ اسٹیٹس" نہیں رہیں گی ہر صوبہ ایک الگ ملک بن جائے گا۔ جو انہوں نے کیا، جو انہوں نے عراق میں کیا، سیریا میں کیا، ہر جگہ کیا کہ اس کے ٹکڑے کئے۔ سیریا ایک سیریا تھا اس کے اندر سے پیدا کیا گیا جارڈن کو، اس کے اندر سے پیدا کیا گیا لبنان کو، اس کے اندر سے پیدا کیا گیا فلسطین کو اور اب ان کا ارادہ ہے کہ جزیرۃ العرب کے حصے بخرے کردئیے جائیں۔ جو وہ کرتے رہے ہمارے ساتھ اب وقت قریب آگیا ہے کہ امریکہ کے ٹکڑے ہوجائیں گے۔
اب وقت قریب آگیا ہے کہ امریکہ کے ٹکڑے ہوجائیں گے!
سوال: کیا آج کے اس سخت دور میں ہم اپنے عقائد اور نظریات سے دستبردار ہو جائیں تو کیا دشمنی کم ہو جائے گی؟
مولانا سلمان ندوی: ہرگز نہیں۔ اگر ہم اپنے عقائد چھوڑ دیں جن عقائد کی بنیاد پر ہم وجود میں آئے، جن عقائد کی بنیاد پر اللہ نے ہمیں قبول کیا، انبیاء نے ہمارے لئے دعائیں کیں تھیں ماضی میں اور آخری نبی جس راستے پر لے چلے تھے۔ جس دن اس دین کو ہم چھوڑ دیں گے، اس راستے کو چھوڑ دیں گے، ہم سے زیادہ کوئی ذلیل اس دنیا میں نہیں ہو گا، ہمیں روند کے رکھ دیا جائے گا اور جہاں جہاں دین چھوڑا گیا جب اسرائیل بائبل پر عمل کررہا تھا اور تورات فوجیوں میں تقسیم کی گئی تھی تو مصر کے جو فوجی تھے وہ شراب پی رہے تھے رات میں۔ 1966ء میں صرف چھ دن کے اندر بلکہ کہئے اسی پہلی رات میں اسرائیل کے جہازوں نے جو بمباری کیا ہے اس میں مصر کو شکست ہوئی، سیریا کو شکست ہوئی، جارڈن کو شکست ہوئی اور ایسی ذلت آمیز شکست ہوئی ہے کہ ہمیشہ کی جو عزت تھی وہ پائمال کردی گئی۔ وجہ کیا تھی؟ کہ اسرائیل اس وقت وہ دینی بنیادوں پر قائم ہوا تھا اور کم از کم اپنے دین کو، تورات کو پڑھ رہا تھا اور مصر میں اس وقت شراب خانوں میں شرابیں پی جارہی تھیں، رات میں فوجیوں نے بدکاریاں کیں اور شراب پی تھی اور اس کے وہ شکست ہوئی تھی اور اس لئے اگر ہمیں فتح ملے گی تو دین سے ملے گی اور بے دینی ہمیں ذلت کے غار میں پھینک دے گی۔
جس دن اس دین کو ہم چھوڑ دیں گے، ہم سے زیادہ کوئی ذلیل اس دنیا میں نہیں ہو گا !
سوال: ایران میں جو طلاب زیرتعلیم ہیں کل اگر وہ ہندوستان جاتے ہیں یا اپنے وطن جاتے ہیں ان کیلئے تبلیغ کے سلسلہ سے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
مولانا سلمان ندوی: جو بھی یہاں طالب علم ہیں ان سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک وہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کی وہ صفات اختیار نہیں کریں گے جن صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ "حضرت رات میں جب اللہ کی عبادت کرتے تھے تو اس وقت کہتے تھے يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا إِلَيْكِ عَنِّي أَ بِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ لَا حَانَ حِينُكِ هَيْهَاتَ غُرِّي غَيْرِي لَا حَاجَةَ لِي فِيكِ قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ فِيهَا۔ فرماتے تھے کہ اے دنیا کسی اور کو دھوکہ دے، مجھے دھوکہ نہ دے۔ تو میرے لئے مزیّن بن کر سامنے آئی ہے میں نے تجھے تین طلاقیں دے دی ہیں۔ یہ جو بات تھی کہ دنیا کو کنارے ڈال دیا اور اللہ سے تعلق قائم رکھا اور اللہ نے جو دین عطا فرمایا اس کی خاطر اپنی جان قربان کردی۔ وقت کے جو مجرم خارجی تھے انہوں نے ان کو شہید کردیا اور دوسرے طرف سے جو مجرم تھے انہوں نے بغاوت کا بگل بجایا لیکن حضرت علی حق کی علامت تھے، حق کی پہچان تھے اور حق کیلئے اللہ نے انہیں قبول فرمایا تھا۔ اس لئے وہ اس پر قائم رہے۔ راتوں کو عبادت کرتے تھے اور روتے تھے۔ یہ بات جب تک طلبہ میں نہیں پیدا ہوگی کہ رات میں وہ تہجد پڑھیں، عبادت کریں، روئیں، کثرت سے تلاوت کریں اور نمازیں اور دعاؤں کا اہتمام کریں۔ تب جاکر یہ صحیح معنی میں طالبِ علم بنیں گے۔ کتابیں رٹ لینے سے، فلسفہ پڑھ لینے سے کوئی طالب علم نہیں بنتا ہے۔ تو یہ بات پہلے سمجھ لیں۔ جب یہ بات سمجھ لیں گے تب ان کا کام یہ ہے کہ جو عمل حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا اور جو عمل حضرت حسین نے وقت کے یزید کے خلاف فرمایا وہ عمل آج کل کی دنیا بھر کے یزیدوں کے خلاف کرنا پڑے گا یعنی اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں نکلنا پڑے گا۔
تو جب یہ کیا جائے گا یعنی حق کی للکار ہوگی، حق کی پکار ہوگی تو باطل مٹتا چلا جائے گا، دبتا چلا جائے گا۔ یہی نہیں ہورہا ہے۔ میں کہتا ہوں، میں تو شیعہ سنی کی تقسیم کو مانتا نہیں ہوں۔ میں نہیں مانتا ہوں۔ کیونکہ ان الدین عند اللہ الاسلام۔ ھو سمکم المسلمین۔ یہ کہتا ہوں کہ جو قرآن کہہ رہا ہے تو واقع یہ ہے کہ اگر صحیح معنی میں ہم ان صفات کو حاصل کریں جو ائمہ اہل بیت کی صفات تھیں۔ جو زہد، جو تقوی، جو عنابت، جو اللہ کے ساتھ ان کا رابطہ، نبی کی سنت کا جو اہتمام۔ یہ بات پیدا کرلیں تو پوری دنیا میں انقلاب آجائے گا۔
ائمہ اہل بیت علیہم السلام اور صحابہ منتجبین کا راستہ ہی ہماری کامیابی اور فتح کا ذریعہ ہے!
تو یہاں سے جو طلبہ نکلتے ہیں ہندوستان سے آتے ہیں کہیں سے آتے ہیں وہ ان کو یہ فکر کرنی چاہئے کہ ہم ائمہ اہل بیت اور جو صحابہ منتجبین جنہیں کہا جاتا ہے، کبارِ صحابہ۔ ان کے راستے پر اختیار کرلیں اور ان کے راستے پر چلتے ہوئے عمل کریں تو فتح بہت جلدی حاصل ہوجائے گی، دجال کا بھی ان شاء اللہ خاتمہ ہوگا اور مہدی (عج) کا ظہور بھی ہوگا، امریکہ کی ایسی دھجیاں اڑیں گی کہ آپ دیکھتے رہ جائیں گے ۔
آخر میں انہوں تاکید کرتے ہوئے کہا: بہرحال میری جو چیزیں بھی شائع ہوتی رہیں اور پہنچتی رہیں اور جو بھی میرے بیانات ہوتے ہیں تو یہ سمجھئے کہ میرا بیان اہل تشیع اور اہلِ تسنن دونوں کیلئے ہوتا ہے میں تفریق نہیں کرتا ہوں اور اسے مانتا نہیں ہوں۔
ہم حوزہ نیوز ایجنسی کی جانب سے آپ کے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا اسی کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتے ہیں والسلام علیکم