۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
انورشاه رحمانی مدیر آل البیت در استانبول

حوزہ / ہم سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس طرح مغرب والے استنبول اور ترکی میں خطیر سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود نوجوانوں اور اسلام پسندی کے جذبے کو ختم نہیں کر سکے ہیں؟ یہ درست ہے کہ ترکی کا ظاہر خراب ہو گیا تھا لیکن ہم بحمداللہ مساجد اور نماز جمعہ کے ذریعہ مذہب اور اسلام کی بنیادوں کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجت الاسلام انورشان رحمانی ترکی کے شہر استنبول میں آل البیت انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان دنوں وہ کربلا اور نجف میں ترک شیعوں کی طرف سے حسینیہ(امام بارگاہ) کی تعمیر میں مصروف ہیں اسی وجہ سے زیادہ تر وقت عراق میں ہی رہتے ہیں لیکن جب وہ بعض امور کے سلسلے میں استنبول واپس آئے تو خوش قسمتی سے ان سے ملاقات اور گفتگو کا موقع ملا اور حوزہ نیوز نے ان سے انٹرویو لیا۔ ان کے اس انٹرویو کو خلاصۃً اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے :

حوزہ: براہِ کرم!پہلے اپنا تعارف کروائیں اور بتائیں کہ آپ دینی تعلیم حاصل کرنے ایران میں کس سال آئے تھے؟

میرا نام انور شاہ رحمانی ہے۔ اس وقت مدرسہ آل البیت کا ڈائریکٹر اور استنبول میں دفتر آیت اللہ سیستانی کا نمائندہ ہوں۔ میں 1989ء میں ایران آیا تھا۔ شروع میں جب ہم ایران آئے تو وہاں "مرکزِ جہانی علومِ اسلامی"  کے نام سے حوزوی تعلیم کا عالمی مرکز تھا۔ ہمیں فارسی زبان پڑھنے کے لیے نجف آباد، اصفہان بھیجا دیا گیا۔ اصفہان میں چھ ماہ کے دوران ہم نے فارسی سیکھی۔ فارسی زبان سیکھنے کے بعد ہم تبریز چلے گئے اور وہاں آیت اللہ شیخ عبدالمجید بنابی کی شاگردی میں "مدرسہ ولی عصر بناب" میں دو سال تک ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ہم واپس قم آ گئے اور تقریباً 7 سال تک قم المقدسہ میں مقیم رہے اور پھر استنبول واپس آگئے۔ قم میں ہم نے استاد تبریزی کے درس خارج میں شرکت کرنے اور آقای سید احمد خاتمی (امام جمعه تهران)، حاج آقای قمی، استاد احمد عابدی (درس اصول، تفسیر، درایه)، آیت‌الله خیریان، آیت‌الله علوی گرگانی سمیت کئی اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔

حوزہ: آپ نے استنبول میں کس طرح آل البیت انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا؟

جب ہم 1999ء میں استنبول واپس آئے تو ہم اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ جناب شہرستانی کی خدمت میں پہنچے اور ان کی موافقت سے ہم نے آل البیت انسٹی ٹیوٹ (ترکی کی نمائندگی کرنے والا) قائم کیا۔آل البیت انسٹی ٹیوٹ اصل میں ایک انتشاراتی ادارہ تھا اور اس نے رفتہ رفتہ دیگر ثقافتی اور سماجی شعبوں میں بھی بڑی پیشرفت کی۔ پھر ہم نے جرمنی میں ایک شعبہ اور اسی طرح "ایغدیر" میں بھی آل البیت انسٹی ٹیوٹ کی ایک شاخ کھولی۔ دیگر مقامات پر بھی اپنی نمائندگیاں قائم کیں۔ ہم نے ترکی میں موجود نامور علماء سے تعاون کی اپیل کی اور انہوں نے بھی اسے بخوشی قبول کیا لہذا اب ہمارے اس ادارے میں عظیم شخصیات موجود ہیں جو مختلف امور میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

ہم نے عقائد، تاریخ اور اخلاقیات وغیرہ کے شعبوں میں تقریباً 200مختلف کتابیں بھی شائع کی ہیں اور اسی طرح جرمن زبان میں جرمنی اور برلن میں تقریباً ۲۰ کتابیں شائع کی ہیں۔ ہم نے بچوں کے لیے ترکی اور جرمن زبانوں میں "مجتبیٰ میگزین" شائع کیا۔ ہم نے اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو متعارف کرانے کے لیے بین الاقوامی کانفرنسز منعقد کیں اور اس میں ترکی کی مذہبی تنظیم کے سربراہ اور حکام کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ محرم کے مہینے میں ہم نے استنبول کے تاریخی "سلطان احمد اسکوائر" میں عاشورہ کا خیمہ لگایا اور ہزاروں نوجوانوں کو مختلف مقابلوں کے ذریعہ مقدس مزارات کی زیارت کے لیے روانہ کیا۔

حوزہ: آل البیت انسٹی ٹیوٹ میں کتنے اور کونسی قومیت کے افراد کام کرتے ہیں؟

جناب سیستانی ایرانی یا عراقی طلبہ کو ترکی نہیں بھیجتے۔ آل البیت انسٹی ٹیوٹ کے اراکین تقریباً 40 افراد ہیں۔ ہم سب ترک ہیں اور ہمارے پاس عراقی یا ایرانی افراد نہیں ہیں۔ تمام ارکان ترک ہیں جنہوں نے ایران اور نجف میں تعلیم حاصل کی اور اب واپس ترکی آچکے ہیں۔ ہم نے "وقف آل البیت" کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی ہے جو چیریٹی ادارے سے زیادہ مضبوط ہے اور یہاں تک کہ ایک اسکول اور یونیورسٹی بھی قائم کر سکتی ہے۔ بنیادی طور پر وقف آل البیت کا آئین اور منشور نامہ شیعہ علماء کی تربیت کے لیے ایک مدرسہ قائم کرنا تھا۔ حکومت نے بھی اس کی منظوری دے دی ہے لیکن بعض قانونی رکاوٹوں اور پیچیدگیوں کی وجہ سے ہم ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے ہیں۔

حوزہ: استنبول میں شیعہ ادارے کن شکلوں اور دھاروں میں کام کر رہے ہیں؟

جہاں تک ترکی کے اندر فعالیت کا تعلق ہے تو یہ کہنا چاہیے کہ یہاں کام کرنے والے تمام اندرونی دھاروں کی اپنی ایک حد ہوتی ہے۔ یہاں پر "زینبیہ کے نام سے ایک تحریک چل رہی ہے جو تقریباً 40 سال قبل جناب شیخ صلاح الدین اوزگندوز نے بنائی تھی۔ اسی طرح ایک اور رجحان 30 سال پہلے سے متعلق ہے جس کی وجہ سے "کوثر انسٹی ٹیوٹ" نامی ادارے  کا قیام عمل میں آیا۔ دونوں گروہوں نے بہت زیادہ کام کئے اور خدمات انجام دی ہیں۔ زینبیہ نے سماجی شعبے اور مساجد کے قیام اور عاشورہ کیے مراسم میں بہت زیادہ خدمات انجام دیں۔ کوثر انسٹی ٹیوٹ ثقافتی شعبے، کتابوں اور رسالوں کی طباعت کے ساتھ میڈیا میں بھی زیادہ سرگرم ہیں۔ تیسرا گروپ "آل البیت انسٹی ٹیوٹ" ہے جس کی بنیاد تقریباً 20 سال پہلے رکھی گئی تھی۔ آل البیت انسٹی ٹیوٹ وہ پہلا ادارہ ہے جو کسی مرجع سے متعلق ہے۔ ترکی کی تاریخ میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں تھا جسے "دفترِ مرجع" کا عنوان دیا جا سکے اور آل البیت انسٹی ٹیوٹ عوام اور اتھارٹی کے درمیان ایک پل ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز علماء ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں یا بات چیت کرتے ہیں۔

حوزہ: جناب شہرستانی نے آل البیت انسٹی ٹیوٹ کے لیے کیا پالیسیاں مرتب کی ہیں؟

جناب شہرستانی آل البیت سے مربوطہ اداروں کے انچارج ہیں اور ان کا نقطۂ نظر بہت وسیع ہے یعنی وہ قم سے یورپ تک نگرانی اور انتظام کرتے ہیں اور ان کے پاس بہت مضبوط مشیر بھی ہیں۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ تمام ممالک سے ہم آہنگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو وہ سیاست سے بہت دور ہیں اور اکثر اپنے ساتھ کام کرنے والے علماء کو کاروبار میں آنے نہیں دیتے ہیں۔ تجارت علماء کو داغدار کرتی ہے۔ جب علماء اس فیلڈ میں داخل ہوں گے تووہ لوگوں کی  آسانی سے خدمت نہیں کر سکیں گے۔ البتہ ایران اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ ایک اسلامی ملک ہے اور ایرانی علماء سیاست کو سمجھنے والے بھی ہیں۔ ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، جارجیا جیسے ممالک... یعنی جن ممالک میں شیعہ اقلیت میں ہیں، ان ممالک کے علماء کو سیاست اور تجارت میں نہیں آنا چاہیے اور تب وہ جناب شہرستانی کی نگاہ سے زیادہ آسانی سے کام کر سکتے ہیں۔

بہت سے سیاستدان ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہمارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور ہر کوئی آ سکتا ہے۔ ہم ان کی دعوت پر لبیک بھی کہتے ہیں لیکن ہمارے حکومت اور عہدیداروں سے کسی بھی قسم کے سیاسی اور تنظیمی تعلقات وغیرہ نہیں ہیں۔ ہمارے پاس جناب شہرستانی کی طرف سے اس کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ہم سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن ہم سفارت کاری اور بیوروکریسی میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ دیگر سرگرمیاں جیسے کہ تعلیم و تربیت، تدریس وغیرہ ہمارے لیے آزاد ہیں۔

کرونا کے ایام میں ورچوئل اور مذہبی بین الاقوامی مقابلوں کا ایک سلسلہ 

آل البیت انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جناب حجت الاسلام انورشان رحمانی نے اپنے انٹرویو کے دوران کرونا کے دنوں میں آل البیت انسٹی ٹیوٹ کے مجازی کلاسز لینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم نے کرونا کے ایام میں ورچوئل اور مذہبی بین الاقوامی مقابلوں کا ایک سلسلہ منعقد کیا۔ جس میں آذربائیجان، ترکی، جارجیا، روس اور یورپ جیسے ممالک سے افراد نے حصہ لیا۔ 7 سے 12 سال کی عمر کے بچوں نے اصولِ دین، فروعِ دین، ائمہ کے نام اور نماز وغیرہ کو حفظ کیا اور پھر واٹس ایپ کے ذریعہ کال کرکے مقابلے میں حصہ لیا۔ان مقابلوں میں ۱۵۰ افراد کے درمیان انعامات تقسیم کئے گئے۔

آل البیت انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے کہا: ہم اس وقت کربلا میں ترک زائرین کے لیے حسینیہ (امامبارگاہ) تعمیر کر رہے ہیں۔ اسی طرح نجف اشرف میں ہم ایک مدرسہ اور ثقافتی کمپلیکس بنائیں گے۔ ہماری دوسری بڑی سرگرمی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد تھی جس میں عراق، ایران اور مختلف ممالک سے افراد نے شرکت کی۔ آیت اللہ سیستانی کے نمائندے، رہبر معظم کے نمائندے اور مذہبی تنظیم کے سربراہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ محرم میں امام حسینؑ کی محبت میں "اتحاد مسلمین" کے عنوان سے بھی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

ترکی میں ہم بحمداللہ مساجد اور نماز جمعہ کے ذریعہ مذہب اور اسلام کی بنیادوں کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہے حجت الاسلام انورشان رحمانی نے اپنے بیانات کے دوران کہا: ہم سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس طرح مغرب والے استنبول اور ترکی میں خطیر سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود نوجوانوں اور اسلام پسندی کے جذبے کو ختم نہیں کر سکے ہیں؟ تو اس کے جواب میں یہ کہنا کہ درست ہے کہ شروع میں  ترکی کا ظاہر کافی خراب ہو گیا تھا لیکن اب ہم بحمداللہ مساجد اور نماز جمعہ کے ذریعہ مذہب اور اسلام کی بنیادوں کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .