۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
بین الاقوامی سیمینار "خطہ لداخ کے تہذیب و  ثقافت" پر ایک نظر

حوزہ/ اس سیمینار میں لداخ کے بودھسٹ رہنماوں اور اسلامی علماء کرام  کے ساتھ ساتھ باقی دانشوروں نے خطہ کی تہذیب و ثقافت ،باہمی بھائی چارہ گی ، وحدت  ،ہمبستگی ، دوستی ،حقوق کی آدائیگی ، امین و امان ،  صلح و صفا، تعمیراتی اور ترقیاتی امورد  پر خطہ کے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ان اقدار کو باقی رکھنے کی اہمیت پر  زود دیا۔

تحریر: محمد جواد حبیب

حوزہ نیوز ایجنسی

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت

خطہ لداخ میں سمسکیت ایجوکیشنل ایڈ سوشل سوسائٹی(SEMSKYED EDUCATION AND CULTURAL SOCIETY UT) کی جانب سے بمورخہ ۱۹ فروری ۲۰۲۲ ؁ کو دو روزہ ایک شاندار بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد ہوا جسمیں تمام مذاہب اور ادیان کے معزز و محترم رہنماوں کے ساتھ ساتھ خطہ لداخ کےعلمی ، فکری ،ثقافتی ، اجتماعی اور سیاسی عہدار تشریف رکھتے تھے حظہ لداخ کے سبھی ادیان کے محترم رہنماووں اور دانشوراں نے اس دو روزہ سیمنیار میں دینی ، تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی موضوعات پر گتفگو کی ۔ اس سیمینار میں لداخ کے بودھسٹ رہنماوں اور اسلامی علماء کرام کے ساتھ ساتھ باقی دانشوروں نے خطہ کی تہذیب و ثقافت ،باہمی بھائی چارہ گی ، وحدت ،ہمبستگی ، دوستی ،حقوق کی آدائیگی ، امین و امان ، صلح و صفا، تعمیراتی اور ترقیاتی امورد پر خطہ کے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ان اقدار کو باقی رکھنے کی اہمیت پر زود دیا۔

اس عالیشان سیمینار میں حقیر کو بھی شرکت کا موقع ملا کچھ تاثرات اس مقالہ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

صاحبان علم جانتے ہیں کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے تب سے انسان اور مذہب ساتھ ساتھ چلاتے آئے ہیں دنیا کے مشہور مذاہب ،اسلام،عیسائیت،یہودیت،ہندو ازم، بدھ ازم ،سکھ ازم اور زرتشت ہیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان نے ہر دور میں کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کی ہے۔ لیکن ان تمام مذاہب کی تعلیمات میں کسی نہ کسی حد تک مماثلت(Similarity) پائی جاتی ہے ۔ جیسے کہ سارے مذاہب کے درمیان یہ اخلاقیات مشترک ہے۔ صداقت اور راست گوئی، دوستی ، بھائی چارگی ،صلح و صفا،دوسرے ادیان کا احترام ، امینت ، عفت و عصمت، دیانت و امانت، الفت و محبت، رشتوں کا احترام، غریبوں، ناداروں، مریضوں اور معذوروں کے ساتھ ہم دردی اور ان کی خبر گیری، توہین ، تحقیر،تعصب اور نفرت سے اجتناب، اختلافات اور فسادات سے دوری،نسل کشی ، جرم و جرایم ،دینی اور اجتماعی فسادات سے دوری ،حقوق کی پایمالی اور ظلم و زیادتی کا خاتمہ، اس طرح کی اخلاقیات کی اہمیت تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مخالف رویہ کو صحیح نہیں سمجھتے۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے خطہ لداخ کے تمام مسلم اور غیر مسلم بھائیوں سے بتائیں کہ ان اخلاقیات پر توجہ دیں اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔
آج کل موجودہ مغرب کا مادہ پرست (Materialism)تہذیب نے اباحیت(LEBRILAISM) کو اس قدر فروغ دیا ہے مغربی تہذیب نے بھگوان،خدا کی جگہ انسان کو ، آخرت کی جگہ دنیا ، معنویات کی جگہ مادیات، اخلاق کی جگہ خواہشات ، وحی کی جگہ عقل و سائنس کو قرار دیا ہے کہ انسان اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے کوئی بھی بندش گوارا نہیں کرنا چاہتا، ہر طرف بے حیائی اور عریانی کی فضا ہے بداخلاقی ، زنا اور بدکاری عام ہورہی ہے، نشہ آور چیزوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں خاندان انتشار اور تباہی کا شکار ہورہے ہیں معاشرہ بربادی کی جانب جارہا ہے اور طرح طرح کے امراض و بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
تمہاری تہذیب اپنی خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا وہ ناپائیدار ہوگا
آج مغرب میں خاندان انتشار اور تباہی کا شکار ہوچکا ہے نفسی نفسانی کا عالم ہے بے چینی ،ڈپیریشن،گھبراہٹ ، راونی بیماری میں مبتدلا نظر آرہے ہیں دنیا کا کوئی بھی مذہب زنا، بدکاری، بے حیائی اور منشیات کے استعمال کو صحیح نہیں سمجھتا ہے اس تہذیب کے خاتمہ کے لیے بھی تمام دینی و سیاسی عہداورں کو مشترک کوشش ہونی چاہیے تاکہ ہماری قوم وملت ، جوان و نسل جدید بالخصوص لداخ کا کلچر و ثقافت ان آفتوں سے محفوظ رہ سکے۔
آج خطہ لداخ میں مختلف ادیان اور مذاہب کے پیروکار زندگی بسر کررہے ہیں ان کے درمیان مذہبی عقائد، افکار و نظریات، تہذیب ومعاشرت کا اختلاف ہے اور کہیں مادری زبان کا فرق بھی پایا جاتا ہے تو کہی لباس اور رہن سہن بدل جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ سب کے سب لداخی ہونے میں مشترک ہیں سب کو اس پر فخر بھی اس لئے کہ لداخی پر امن ، دطن دوست ، خوش مزاج ، خیر خواہ اور نرم دل کا مالک ہوتا ہے اس لئے ان کے مشترک مسائل بھی ہیں۔ جو ہر ایک کی ضرورت ہے کہ لداخ میں امن و امان ہو، فکر و عمل کی آزادی ہو، لداخ کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کے مواقع حاصل ہوں، انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے، غربت اور جہالت ختم ہو، طبی سہولتیں حاصل ہوں، صفائی ستھرائی کا اہتمام ہو اور فضائی آلودگی پر قابو پایا جائے۔ اس نوعیت کے اور بھی مسائل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے معاشرے میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے سیمینار جو آج SEMSKYED EDUCATION AND CULTURAL SOCIETY UT منقعد ہوئی ہر سال ہونا چاہئے ان میں ان موضوعات پر گفتگو ہونی چائیے اور حکومت کو بھی متوجہ کرانا چاہئے تاکہ بہتر نتیجہ کی توقع کیا جاسکے ۔

اس مقدمہ کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر انسان دنیامیں امن و امان ، دوستی و شانتی ، صلح و صفا، آرامش اور آسایش چاہتا ہے تو اسے دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ دین، انسان کی بہتر رہنمائی کرسکتا ہے میں ایک اسلام شناس ہوں میرے فرض بنتا ہے کہ میں اسلام کا موقف بیان کروں محترم حضرات دین اسلام امن و سلامتی، عدل و انصاف،اعتدال و درمیانہ روی، عفو و درگزر اور رواداری و عدم تشدد کا دین ہے۔ اس کو انتہاء پسندی یا دہشت گردی کی طرف منسوب دینا اغیار اور اسلام دشمنوں کا کام ہے۔ وہ دین اسلام کو اس کی اصل تعلیمات کے برعکس پیش کررہے ہیں میں آپ سب سے گزار کرونگا کہ اسلام کو اسلام کے صحیح منابع (Resources)سے حاصل کریں تاکہ آپ کے لئے اسلام کی حقیقت واضح ہوجاے وہ منابع ،قرآن مجید ، سنت اہل البیت علیہم السلام ہے ۔
آج ساری دنیا ایک عالمی گاؤں (Global Village) کاروپ اختیار کرچکی ہے۔ مختلف مذاہب، اقوام اور ممالک والے ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ عالمی برادری کو بھی اپنی سوچ وفکر اور عمل و کردار پر نظر دوڑانی پڑے گی۔ یورپ اور امریکہ کے دانشوروں اور اربابِ اختیار کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو صحیح طورپر سمجھنے کا حوصلہ و برداشت پیدا کریں۔ وہ تعصب کا چشمہ اتار کر ہادیٴ اعظم، رحمة للعالمین، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی زندگی کا منصفانہ مطالعہ کریں۔ اورپھر تاریخ انسانیت کے تمام مصلحین سے اسلامی حقیقی زندگی کا تقابل کرکے اس کی آفاقی، ہمہ گیر اور بی نظیر حیثیت کو تسلیم کرلیں۔ وہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلیں کہ اسلام اور مسلمان روئے زمین کی ایک عظیم قوت ہیں۔ ان کو صفحہٴ ہستی سے نہیں مٹایاجاسکتا۔ ان کے ساتھ ٹکرلینے کی بجائے وہ اصولِ"پُرامن بقاءِ باہمی" (Peaceful Mutual Co-existence)کے راستے اور ذرائع تلاش کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے دنیا میں امن قائم ہوگا اور سلامتی و خوشحالی آئے گی۔

ساحر لدھیانوی کا ایک نظم پیش کرنا چاہتاہوں
مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا /ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا
قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی/ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
جو توڑ دے ہر بند وہ طوفان بنے گا/انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
نفرت جو سکھائے وہ دھرم تیرا نہیں ہے/انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے
قرآن نہ ہو جس میں وہ مندر نہیں تیرا/گیتا نہ ہو جس میں وہ دھرم تیرا نہیں ہے
تُو امن کا اور صلح کا ارمان بنے گا/انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
یہ دین کے تاجر یہ وطن بیچنے والے/انسانوں کی لاشوں کے کفن بیچنے والے
یہ محلوں میں بیٹھے ہوئے قاتل یہ لٹیرے/کانٹوں کے عوض روحِ چمن بیچنے والے
تو ان کے لیے موت کا اعلان بنے گا/ انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا۔


لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .