۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 380784
24 مئی 2022 - 18:45
سانحہ ۱۹۸۸ء گلگت بلتستان

حوزہ/ ۲۲ مئی ۱۹۸۸ ء کا دن گلگت بلتستان کے لئے وہ افسوسناک دن ہے جس روز وہاں کے ہنستے بستے عوام کی محبت و اخوت، اتحاد و بھائی چارگی کو نفرت اور دشمنی میں تبدیل کیا گیا ۔ جی ہاں یہ ۱۹۸۸ء کی لشکر کشی تھی جس نے گلگت بلتستان میں نفرت کے بیج بوئے اورکئی آباد علاقوں کو ویران کر دیا ۔

تحریر : مولانا اجمل حسین قاسمی

حوزہ نیوز ایجنسیگلگت بلتستان دنیا کے مشہور و معروف بلند و بالا پہاڑوں کوہ ہمالیہ ،کوہ ہندوکش اورکوہ قراقرم کے بیچ میں محصور ایک خوبصورت اور حساس خطہ ہے ۔ گلگت بلتستان کے غرب شمال میں افغانستان، شرق شمال میں چین اور تاجکستان ، شرق جنوب میں ہندوستان واقع ہے ۔ دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ (کے – ٹو )، نانگا پربت اور راکا پوشی بھی اسی علاقے میں موجود ہیں ۔

ایک زمانہ ایسا تھا جب گلگت بلتستان میں بے مثال امن و اخوت، بھائی چارہ، محبت اور اتحاد پایا جاتا تھا ۔ یہاں شیعہ سنی اختلافات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ شیعہ سنی سب مل جل کر بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ ایک دوسرے سے رشتہ داریاں تھیں ۔ خوشی وغم اور دکھ درد میں سب شریک ہوتے تھے

۲۲ مئی ۱۹۸۸ ء کا دن گلگت بلتستان کے لئے وہ افسوسناک دن ہے جس روز وہاں کے ہنستے بستے عوام کی محبت و اخوت، اتحاد و بھائی چارگی کو نفرت اور دشمنی میں تبدیل کیا گیا ۔ جی ہاں یہ ۱۹۸۸ء کی لشکر کشی تھی جس نے گلگت بلتستان میں نفرت کے بیج بوئے اورکئی آباد علاقوں کو ویران کر دیا ۔

سانحہ ۱۹۸۸ء ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت رونما ہوا ۔ اس سانحے کا منصوبہ صدارتی ایوانوں میں اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق کی سرکردگی میں پاس کیا گیا ۔ یہ طے ہوا کہ شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) پاکستان کا وہ حصہ ہے جو کہ ۴۸ ہزار مربع میل پر مشتمل ہے جس میں ۸۰ فیصد آبادی شیعیان حیدر کرار کی ہے۔اس خطے سے مومنوں کا خاتمہ کر کے ان کی جگہ افغان مہاجرین کو بسانے کے مذموم مقصد کے تحت سرحد ،کوہستان اور ملک کے دیگر علاقوں سےوہابی ذہنیت رکھنے والے لوگوں پر مشتمل پچاس ہزارکا ایک لشکر تیار کیا گیا ۔ اس گروہ کو حکومت کی جانب سے بھی بھرپور تعاون حاصل تھا۔جدید ترین ہتھیار اور جنگی ساز و سامان سے لیس یہ لشکر ۶۰۰ کیلو میٹر کا راستہ اور کئی چیک پوسٹیں بغیر کسی رکاوٹ کے طے کرتے ہوئے کئی ضلعوں سے گزر کر گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہوا ۔
ایک ہفتے تک اس لشکر میں موجود درندہ صفت انسان نما جانور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو قتل و غارت کرتے رہے ۔ کئی مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا گیا ۔مساجد اور امام بارگاہوں میں موجود قرآن مجید اور دیگر اسلامی کتب کو بھی جلایا گیا ۔فصلوں کو آگ لگائی گئی اور جانوروں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا ۔ ایک اندازے کے مطابق اس سانحے میں شیعوں کی ۱۰۰ مساجد ۵۰ امام بارگاہیں اور قرآن مجید کے ہزاروں نسخوں کو نذر آتش کیا گیا اور ۱۳ دیہاتوں کو ویران، تقریبا ۱۰۰ مومنین کو شہید کیا گیا ۔حکومت اس ظلم و بربریت پرخاموش تماشائی بنی رہی ۔

راقم الحروف کے خالو شہید حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ جہانگیر حسین مناوری اور شہید حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ ناصر عباس نورانی اولین شہداء روحانیت گلگت بلتستان بھی اس سانحے کے شہداء میں سے ہیں ۔ جو آپس میں ہم زلف بھی تھے ۔ ان دو بزرگواروں کے علاوہ راقم الحروف کے والد گرامی شہید علی غلام قاسمی اور والدہ محترمہ کے ماموں ڈپٹی ڈائریکٹر مظفر علی خان بھی اسی سانحے میں شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔

نہایت ہی افسوس کا مقام یہ ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت اتنے بڑے حادثے اور اتنے بڑے جانی و مالی نقصان کے باوجود ابھی تک ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف حکومت کی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کے باعث یہی دہشتگرد بعد میں بھی امن و امان کی اس وادی میں خون خرابہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اگر بروقت ان کاروائیوں کے خلاف حکومت ایکشن لے لیتی تو آج تک اتنےبے گناہ انسانوں کا خون نہ بہتا۔ اس کے بعد جتنے بھی حادثے رونما ہوئے ان سب کی بنیادی وجہ مذکورہ سانحے کے دہشتگردوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچانا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .