۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
کتاب تاریخ جامعہ جوادیہ بنارس

حوزہ/ ہندوستان کی  ایسی ہی چند قدیم ترین اور عظیم شیعہ دینی درسگاہوں میں شامل بین الاقوامی سطح پر مشہور و معروف حوزۂ علمیہ جامعہ جوادیہ بنارس بھی ایک نمایاں عزت و شہرت کی حامل اعلیٰ دینی درسگاہ ہے۔جس نے عالمی پیمانہ پر دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے تربیت یافتہ  ’’ فخر الافاضل‘‘  علماء و مبلغین کو بھیج کر علوم ِاہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی

عرضِ مؤلف:

از قلم: حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا شیخ ابن حسن املوی (صدرالافاضل،واعظ)

ہندوستان کی قدیم و عظیم اور مشہورو معروف بین الاقوامی دینی درسگاہ جامعہ ٔ جوادیہ بنارس

اعوذ با للہ من الشیطان اللعین الرجیم۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔الحمد للہ رب العالمین۔والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا و نبیینا خاتم النبیین ابی القاسم محمد و آلہ الطیبین الطاھرین المعصومین ۔ و لعنۃ اللہ علیٰ اعدائھم اجمعین من یومنا ھٰذا الیٰ قیام یوم الدین۔ امّا بعد۔

عالیجناب مولانا مرزا یوسف حسینؒ صاحب قبلہ طاب ثراہ صدرالافاضل،واعظ ،آپ جامعۂ سلطانیہ لکھنؤسے فارغ التحصیل ہونے کے بعدمدرستہ الواعظین لکھنو تشریف لائے ۔تین سالہ کورس کے تکملہ کے بعد بحیثیت واعظ پنجاب تشریف لے گئے۔۶سال صوبہ سرحد میں حکومت کی طرف سے حاکم شرع مقرر ہوئے ۔اوراس کے بعد پنجاب میں تقرر ہوا۔

۱۹۴۶؁ء تک آپ نے پنجاب سرحد،سندھ، بلوچستان،یوپی،ممبئی،اوررنگون کادورہ فرماتے رہے۔آپ نے بہت سے مقامات پرانجمنیں قائم کیں۔مدرستہ الواعظین کے جلسے کئے۔ متعدد معیاری کتابوں کے مصنف تھےموصوف مجلس عمل علمائے شیعہ پاکستان کے صدر اورمدرستہ الواعظین لاہور کے پرنسپل تھے۔تاریخ کی ضرورت و اہمیت کے بارے میںآپ کتاب مطلع انوار تالیف حجۃ الاسلام مولانا الحاج سید مرتضیٰ حسین صاحب قبلہ صدرالافاضل کے ابتداء میں بطور پیش لفظ تحریر فرماتے ہیں:

’’ تاریخ ہی ایسا سدا بہار گلشن ہے جو سیکڑوں ہزاروں سال کے واقعات ہر دور کے حالات و کیفیات و مقصد حیات ،اقوام عالم کی ترقی و تنزلی اور اس کے کمال و زوال ،اہل علم و دانش اور صاحبان عقل و ہنر کے کمالات ایجادات خدمات اور ان کی مادّی و روحانی تحقیقات کو زندہ رکھنے اور حیا ت ابدی بخشنے کا ضامن ہے ۔اس کا ہر حصہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ اور سبق آموز ہے۔

کتاب تاریخ جامعہ جوادیہ بنارس ایک نظر میں

ایک جہان گشت سیّاح جو اپنی عمر کا سب سے بڑا حصہ ممالک عالم کی سیرو سیاحت میں گزارتا ہے وہ اپنی محدود اور مختصر عمر میں اس قدر معلومات مہیّا نہیں کر سکتا جس قدر اسے تاریخ کے مطالعہ سے حاصل ہو سکتے ہیں ۔اس لئے کہ سیر و سیاحت زیادہ سے زیادہ موجودہ زمانہ کے حالات سے بہرہ و ر کر سکتی ہے لیکن ماضی کے ادوار حال بن کر اس کے سامنے آجائیں اور انسان بیک وقت ان سے استفادہ کر سکے،ایسا نہیں ہو سکتا۔

ہمیں انبیاء و مرسلین کا تعارف ہوا تو تاریخ کے ذریعہ ،سردار دو جہان حضرت محمد مصطفےٰصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مقدس زندگی کا تعارف ہوا تو تاریخ کے ذریعہ،اسلام اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے تعارف ہوا تو تاریخ کے ذریعہ،آنحضر ت ؐ کے اہل بیت اور ان کی پاکیزہ زندگی اور اعلیٰ تعلیمات کا علم ہوا تو تاریخ کے ذریعہ ۔۔۔‘‘
(ماخوذ از کتاب مطلع انوار ،تالیف حجۃ الاسلام مولانا سید مرتضیٰ حسین صاحب قبلہ صدرالافاضل،صفحہ ۴)

سرکار ظفرالملۃ ؒ نے اپنے ایک خطبۂ صدارت میں درسگاہوں کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مولا علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی پیش فرمایا کہ ’’ دین خزانہ ہے اور علم اس کا راستہ ہے ‘‘۔ راستہ منزل تک پہونچنے کا وسیلہ ہے۔ اسی طرح درسگاہیں حصول دین کا ذریعہ ہیں‘‘۔
(خطبۂ صدارت جشن زریں مدرسہ باب العلم مبارکپور،بیاد سرکار ظفرالملۃ ؒ ۲۵ویں برسی کے موقع پر خصوصی شمارہ ۱۵؍ربیع الاول ۱۴۲۸ھ؁،صفحہ ۳۸)

ہندوستان کی ایسی ہی چند قدیم ترین اور عظیم شیعہ دینی درسگاہوں میں شامل بین الاقوامی سطح پر مشہور و معروف حوزۂ علمیہ جامعہ جوادیہ بنارس بھی ایک نمایاں عزت و شہرت کی حامل اعلیٰ دینی درسگاہ ہے۔جس نے عالمی پیمانہ پر دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے تربیت یافتہ ’’ فخر الافاضل‘‘ علماء و مبلغین کو بھیج کر علوم ِاہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا تو ساتھ ساتھ دین مبین اسلام کی اچھی و سچی تبلیغ و ترویج کے ذریعہ نور ہدایت و معارف کو سارے عالم میں عام کرنے کی سعی بلیغ سے حتی الامکان کوئی دریغ نہیں کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ:۔
مدارسِ اسلامیہ ! ملتِ اسلامیہ کی شہ رگ ہیں۔
مدارس اسلامیہ ! تعلیمات ِ اسلامیہ کی اصل و اساس ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ ! انسانی،اسلامی ، سماجی اقدار کے محافظ ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ ! اسلامی احکام و عقائد کے نگہبان ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ ! اسلامی زبان و تہذیب و ثقافت کے مروج و مبلغ ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ ! قلعۂ اسلام کی فصیل کا درجہ رکھتے ہیں۔

مدارسِ اسلامیہ کی نا قابلِ فراموش انمول خدمات اور لائق تحسین و آفرین ، قابلِ قدر حالات و واقعات کی تعریف و تاریخ سے آگہی و جانکاری کے مقصد کے پیشِ نظر ہم نے برادر عزیز آقائی محترم ڈاکٹر مھدی خواجہ پیری دام ظلہ العالی بانی مرکز بین المللی نور میکرو فیلم ،نئی دھلی کی خواہش و فرمائش پراور آقائی موصوف کی مکمل نظارت و حمایت سے تا ریخ مدرسۃ الواعظین لکھنو،، تین جلدوں میں ۔اور ،، تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنو،، تین جلدوں میںاو ر’’ تاریخ مدرسہ باب العلم مبارک پور،، ایک جلد میں فی سبیل اللہ مرتب و مکمل کیا۔جو مرکز بین المللی نور میکرو فیلم ،ایران کلچر ہاؤس ،نئی دھلی کی جانب سے زیور طبع سے آراستہ و پیراستہ ہو کر منظر وجود و شہود پر پورے آب و تاب کے ساتھ اپنا اپنا جلوہ بکھیر رہی ہیں۔

اور اب بفضلِ رب العالمین ،بطفیل ِ ائمۂ معصومین ؑ تاریخ جامعۂ جوادیہ ،بنارس ،، آپ کی خدماتِ عالیات میں پیش کرنے کا شرف حاصل کر رہاہوں۔ایسے علمی اداروں ،دینی مدرسوں سے وابستگی و عقیدت مندی اور تاریخی آگہی ہماری روحانی زندگی اور قومی و مذہبی ترقی کی علامت اورضمانت ہیں۔اسی غرض و غایت کے مد نظر، قارئین کرام کی دلچسپی و آگہی کے لئے تازہ ترین معمولی کاوش پیشِِ خدمت ہے۔

اس کتاب کی ترتیب و تدوین کے سلسلہ میں ہم ممنون و متشکر ہیں حضرت مستطاب آیۃ اللہ سید شمیم الحسن صاحب قبلہ ،جناب حجۃ الاسلام مولاناسید ضمیر الحسن رضوی صاحب قبلہ،جناب حجۃ الاسلام مولانا سید ندیم اصغر رضوی صاحب قبلہ ،جناب حجۃ الاسلام مولانا شیخ مظاہر حسین صاحب قبلہ پرنسپل مدرسہ باب العلم مبارکپور کے جنھوں نے نہ صرف ہماری ہمت افزائی کی بلکہ بعض مدارک و مآخذ کی فراہمی میں کمک فرمائی اور پروف ریڈنگ میں بھی مدد کی۔نیز میرے بیٹے ماسٹر ساغر حسینی سلمہ(بی ،کامB.Com.) گورنمنٹ ٹیچر،مولانا مسرور فیضی سلمہ قمی ،عباس احمد غدیری سلمہ بی، اے (B.A.) [آپریٹر ساغر کمپیوٹر سینٹر مبارکپور] میری اہلیہ محترمہ یار جہاں بانو صاحبہ (بنت جناب الحاج محمد یٰسین صاحب مرحوم، پورہ خواجہ ،مبارکپور) ۔ میری بیٹی تنویر ذاکیہ سلمہا قمی۔ ایم، اے فارسی گولڈ میڈلسٹ M.A.Persian.Research Scholar.(ریسرچ اسکالر لکھنو یونیوارسٹی) زوجہ جون ایلیا سلمہ گھوسی،مئو۔بہو ثبینہ بانو سلمہا بی،اے B.A.(بنت جناب اعجاز الحسن صاحب کیتھولیا غازی پور) زوجہ ماسٹر ساغر حسینی سلمہ ۔شبنم فاطمہ سلمہا بی ،ایس، سیB.Sc.( بنت جناب کرار علی صاحب کربلائی ،بازید پورہ ،کوپا گنج ،مئو)زوجہ مو لانا مسرور فیضی ’’قمی‘‘سلمہ کا بھی شکر گز ار و دعا گو ہوں جنھوں نے فوٹو وغیرہ کی درستگی اور سیٹنگ وغیرہ میں کافی مدد کی ہے۔ ’’ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذ ریٰتنا قرۃ اعین.

ماضی کی تابناک کامیابیو ں و کامرانیوں کی حصول یابی و باز یافت کے لئے کون خواھشمند نہیں ہوتا،لکیر کا فقیر بنے رہنا کوئی ہرگز پسند نہیں کرتا اس وجہ سے بھی یہ امر تقریباً ہر کتاب میں ہم واضح کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ’’ واقعات کو ایمانداری ،غیر جانبداری،اور تحقیق کی کسوٹی پر پرکھ کر قلم بند کرنا تاریخ ہے۔تاریخ ماضی کے واقعات کو دہرا دینے کا نام نہیں ہے ،بلکہ ماضی کی باز یافت کا فن ہے،،(عبید الرحمٰن صدیقی۔کتاب تذکرہٗ مشائخ غازی پور،صفحہ ۲۲)۔

اور ’’۔تاریخ کا ایک مزاج یہ بھی ہے کہ وہ صرف عمومی واقعات کو قلمبند کرتی ہے۔جبکہ تاریخ کے نیچے ایک اور تاریخ دبی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ کتابوں سے سچائی لکھتے ہیں اور کچھ لوگ حقائق سے۔‘‘ (اسد مفتی ، روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو لکھنؤ۔۴؍اکتوبر۲۰۱۲ء؁ بروز جمعرات۔صفحہ ۷)

کتاب تاریخ جامعہ جوادیہ بنارس ایک نظر میں

یوں تو تاریخ نام ہے اس علم کا جس کے ذریعہ سے ہم عہد ماضی اور سلف کے حالات و واقعات، اس زمانہ کی تہذیب و تمدن ،ملکی و سیاسی اورمذہبی و معاشرتی حالات وغیرہ کے متعلق معلومات حا صل کر سکیں ۔اب اگر دیانتدار و ایماندار مؤرخ ہے اور اس کی نظر تعصب اور طمع سے پاک ہے تو وہ جو واقعہ جس طرح دیکھے گا یا سنے گا من و عن اسی طرح لکھ دے گا۔بنا بریں حتی الامکان ہم کو جو مواد تحریری طور سے دستیاب ہو سکے انھیں اس کتاب میں جمع کردئے ہیں ،اس طرح سے شاید ’’ ایک علمی ادارہ،، کا کچھ حق بھی ادا ہو جائے،تاہم اگر کہیں کوئی
بھول چوک نظر آئے تو اس کے لئے معذرت خواہ ہیں۔
فقط والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
احقرالزمن شیخ ابن حسن املوی [صدرالافاضل،واعظ]
بتاریخ۱۳؍ رجب المرجب ۱۴۴۱ھ؁ مطابق ۹؍مارچ ۲۰۲۰ء؁
حسن اسلامک ریسرچ سینٹر۔حسن منزل۔محلہ محمود پورہ۔موضع و پوسٹ املو (مبارکپور) ضلع اعظم گڑھ(یوپی) pin :276404
مکتبۃ الحسن (اسلامک ریسرچ سینٹر): بیت الحسن۔A/54گلمہر سوسائٹی ۔وٹوا۔احمدآباد(گجرات) انڈیا
Mobile:0091-8765110786 E-Mail: ihamilovi@yahoo.com

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .