حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،وارانسی(اتر پردیش)ہندوستان/ انٹرنیشنل مائکرو فلم سینٹر نور ، ایران کلچر ہاؤس ،نئی دہلی کی جانب سے شہر بنارس میں کتاب مستطاب "تاریخ جامعہ جوادیہ" کی رسم اجراء شان و شوکت کے ساتھانجام پائی ۔ اہل بنارس کی عقیدت کا مرکز مشہور درگاہ " فاطمان" جہاں ایران کےمشہور عالم دین علامہ شیخ علی حزین طیب اللہ رمسہ کی مزار واقع ہے وہاں شمیم الملت کے خویش "مولانا اعجاز حسنین غدیری طاب ثراہ" کی مجلس چہلم منعقد ہوئی جس کو حجت الاسلام والمسلمین مولانا شیخ غلام رسول نوری نے خطاب کیا ۔ مجلس کے درمیان کتاب"تاریخ جامعہ جوادیہ" کی رسم اجراء کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ پروگرام 22مئی 2022ء بروز اتوار بخیر و خوبی منعقد ہوا۔
تصویری جھلکیاں: کتاب مستطاب تاریخ جامعہ جوادیہ کی رسم اجراء
واضح رہے کہ مذکورہ کتاب، ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری ڈائرکٹر آف انٹرنیشنل مائکروفلم نور کی زیر نگرانی آمادہ ہوئی ہے اور اس کتاب کے مصنف "الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی صاحب صدرالافاضل،واعظ " ہیں جنہوں نے کافی جدّوجہداور محنت و مشقت کے ساتھ اس کتاب کو آمادہ کیا ہے۔اس کتاب میں ابتدائی دور سے آخری دور تک جامعہ جوادیہ کی تاریخ کو واضح کیا گیا ہے، شروع سے آخر تک جتنے اساتذہ، طلاب اور خدمت گذار رہے ہیں ان سب کا ایک مقدارتک تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے۔
آیت اللہ شمیم الحسن صاحب (شمیم الملت) نے کتاب کے بارے میں تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: فاضل جلیل عمدۃ الواعظین مولانا ابن حسن صاحب واعظ زید فضلہ املوی نے مدارس کی تاریخ کو جمع کرکے ایک مہتم بالشان کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جامعہ جوادیہ قدیمی اور معروف دینی و مذہبی درسگاہوں میں سے ایک ہے، اس درسگاہ کے فارغ ’’ فخرالافاضل‘‘حضرات نہ صرف ہندوستان کے مختلف شہروں و قریوں میں بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں میں علم و دین حق کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
حجت الاسلام و المسلمین مولانا سید غافر رضوی چھولسی نے کہا: ہمارے ادارہ’’ انٹرنیشنل مائکرو فلم سینٹر نور‘‘کے اہم مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ قدیمی و مذہبی درسگاہوں کی تاریخ کا احیاء کیا جائے، اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مدرسۃ الواعظین لکھنؤ، مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، مدرسہ باب العلم مبارک پور اور جامعہ جوادیہ بنارس کی مکمل تاریخ تصنیف و تالیف کی منزلوں سے گزر کر اور زیور طبع سے آراستہ و پیراستہ ہو کر منصۂ وجود و شہود پر جلوہ بکھیرنے کے آمادہ ہیں۔
حجت الاسلام و المسلمین مولانا سید رضی زیدی نے کہا: اگر تاریخ محفوظ نہ کی جائے تو ایک زمانہ میں نسیًا منسیًا ہوجاتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ہماری دینی درسگاہوں سے واقف رہیں، اسی چیز کے پیش نظر ہمارے ادارہ نے یہ اہم قدم اٹھایا ہے کہ مدارس کی تاریخ کو محفوظ کیا جائے۔
کتاب کے مؤلف حجت الاسلام و المسلمین مولانا شیخ ابن حسن واعظ املوی نے کہا: تاریخ، انسان کی یادداشت کا وہ بیش بہا خزانہ ہے جس پر چل کر انسان اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں سوچ سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے تاریخ کو محفوظ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، اس کے ذریعہ ہماری آئندہ نسلیں تاریخ سے واقف رہیں گی۔
کتاب کی رسم اجراء آیۃ اللہ شمیم الحسن اور علمائے کرام کے دستہائے مبارک سے انجام پائی ۔اس موقع پر ہندوستان کی معروف علمی و ادبی شخصیتیں موجود رہیں جن میں سربراہ جامعہ جوادیہ شمیم الملت آیت اللہ سید شمیم الحسن رضوی، حجت الاسلام مولانا شیخ ممتاز علی(امام جمعہ امامیہ ہال دہلی)، حجت الاسلام مولانا سید حسین مہدی حسینی ممبئی،حجت الاسلام الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی، حجت الاسلام مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی(اسلاملک اسکالردہلی)، حجت الاسلام مولانا رضی زیدی پھندیڑوی(ایران کلچر ہاؤس)،مولانا سید ولی الحسن تہران ایران،رضی الحسن انجینیر تہران ایران،مولانا سید محمد عقیل حسینی،مولانا محمد رضا لکھنؤ،مولانا قیصر حسین نجفی،مولانا شبیب حسینی ،حجت الاسلام مولانا سید شاہد جمال رضوی،حجت الاسلام مولانا شیخ غلام رسول نوری، حجت الاسلام مولانا مظاہر حسین محمدی پرنسپل مدرسہ باب العلم مبارکپور، مولانا ڈاکٹر کاظم مہدی عروج جونپوری، حجت الاسلام مولانا کرار حسین اظہری مباکپور،مولانا نسیم الحسن استاد مدرسہ جعفریہ کوپاگنج،حجت الاسلام مولانا سید ضمیرالحسن رضوی استاد جامعہ جوادیہ بنارس، حجت الاسلام مولانا سید وسیم اصغر رضوی، حجت الاسلام مولانا سید ندیم اصغر رضوی، حجت الاسلام مولانا مصطفیٰ علی خان ،حجت الاسلام مولانا جاید حسین نجفی اور دیگرعلماء و مومنین قابل ذکر ہیں۔