تحریر: مینا عظیمی
حوزہ نیوز ایجنسی । مقبوضہ فلسطین میں ڈانس آف فلیگز یا پرچم مارچ ایک متنازعہ تقریب ہے جو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسند یہودی آبادکار ہر سال درست اس موقع پر انجام دیتے ہیں جب 1967ء میں قدس شریف مکمل طور پر صہیونیوں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ یہ تقریب درحقیقت قدس شریف پر مکمل قبضے کا جشن ہے۔ یہ جشن دو دن تک انجام پاتا ہے اور اس کا اہم ترین حصہ آخر میں اسرائیلی پرچم اٹھا کر مارچ کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ تقریب خاص طور پر مغربی کنارے میں مقیم شدت پسند یہودی آبادکار انجام دیتے ہیں اور پورے مقبوضہ فلسطین سے شدت پسند یہودی آبادکار اس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس موقع پر صہیونی خاخام، سیاستدان اور کینسٹ کے اراکین بھی مذہبی مقامات پر جمع ہو کر خاص تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔
اس تقریب کا آغاز 1974ء ہوا جب پہلی بار یہودا حیزنی نامی ایک صہیونی خاخام نے خاص انداز میں گانا گایا اور رقص کیا۔ اس کے بعد یہ رقص اجتماعی شکل اختیار کر گیا اور اسی کی بنیاد پر "ڈانس آف فلیگز" یا رقص پرچم نامی تقریب نے جنم لیا۔ شروع میں یہ جشن دن کے آخری حصے میں اور سورج غروب ہونے کے قریب انجام پاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا ٹائم تبدیل کر دیا گیا اور دوپہر کے وقت انجام پانے لگا۔ صہیونی خاخام حاییم دروکمان اس کی سرپرستی کیا کرتا تھا۔ شدت پسند یہودی آبادکار اس مارچ کے دوران قدس شریف کے پرانے محلے باب العامود میں کچھ تقریبات انجام دیتے ہیں اور اس کے بعد مسجد اقصی میں واقع "براق" دیوار کی جانب چل پڑتے ہیں اور وہاں مخصوص انداز میں گانا گاتے اور رقص کرتے ہیں۔
تقریباً ہر سال ہی اس جشن کے موقع پر شدت پسند یہودی آبادکاروں اور مقامی فلسطینی مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں انجام پاتی ہیں۔ حتی 2010ء سے 2016ء کے درمیان صہیونی سکیورٹی فورسز اس مارچ کا روٹ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے اور یہودی آبادکاروں کو باب الاسباط نامی محلے میں داخل ہونے سے روکنے لگے تھے۔ آخری مرتبہ جب یہ جشن انجام پانا تھا تو غزہ میں اسلامی مزاحمت نے مقبوضہ بیت المقدس کی جانب میزائل فائر کئے۔ اس کے نتیجے میں غاصب صہیونی رژیم شدید خوفزدہ ہو گئی اور اس نے یہ جشن روک دیا تھا۔ حماس کے ساتھ 12 روزہ سیف القدس معرکے کے بعد اب صہیونی رژیم اس بارے میں زیادہ خوفزدہ ہے اور جشن کے انعقاد کی صورت میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے اسے نشانہ بنائے جانے کا زیادہ خطرہ محسوس کرتی ہے۔
صہیونی اخبار ہارٹز کے تجزیہ نگار یوسی میلمن نے اپنے ایک کالم میں پرچم مارچ منعقد ہونے کی صورت میں حماس کے ساتھ دوبارہ جنگ کے شدید خطرے سے خبردار کیا ہے اور اسے "حماقت مارچ" قرار دیا ہے۔ وہ اپنے کالم میں مزید لکھتا ہے: "باربارا ٹیکمن اپنے کتاب بیوقوفی کی تاریخ میں لکھتی ہے کہ حماقت ایسی چیز ہے جو ذاتی مصلحت سے تضاد رکھتی ہے۔ یہ بالکل وہی چیز ہے جو حالیہ ہفتوں میں بنجمن نیتن یاہو کے بیانات اور حکومت خاص طور پر پولیس کے رویے میں دیکھی گئی ہے۔" یوسی میلمن نے مزید لکھا: "دائیں بازو کے حامیوں کی انتہا پسندی اور پولیس کی حد سے زیادہ شدت پسندی کے ناگوار نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور بعض سیاسی جماعتوں کا دباو پرچم مارچ کینسل ہونے میں رکاوٹ بن گیا ہے۔"
اگرچہ یہ جشن ہر سال منعقد ہوتا ہے لیکن اس سال ایک خاص مقصد کے تحت منعقد ہونے جا رہا ہے اور وہ مقصد مسجد اقصی اور قدس شریف کی بے حرمتی ہے۔ گذشتہ برس 28 رمضان کے دن مختلف صہیونی گروہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس میں 30 ہزار یہودی آبادکاروں پر مشتمل "عظیم طوفان" مارچ منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ مارچ سیف القدس معرکہ شروع ہونے کا حقیقی سبب بن گیا تھا کیونکہ صہیونی فورسز اور آبادکاروں نے مسجد اقصی پر حملہ ور ہو کر وہاں موجود فلسطینی نمازیوں کو بھی زخمی کیا اور مسجد کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ بعض فلسطینی سرگرم رہنماوں کا کہنا ہے کہ عظیم طوفان نامی مارچ کا اصل مقصد مسجد اقصی میں باجماعت نماز کا خاتمہ کرنا تھا۔ ان کی نظر میں اگر اسلامی مزاحمت کے میزائل نہ ہوتے تو صہیونی عناصر اس مقصد میں کامیاب بھی ہو سکتے تھے۔
ہر سال ڈانس آف فلیگز نامی مارچ کو ایک خاص عنوان کے تحت منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی اسے ایک خاص عنوان دیا گیا ہے۔ اس جشن کے منتظمین نے یہ نعرہ لگایا ہے کہ "رقص پرچم مارچ، ہم آخر تک قدس کے اتحاد کے خواہاں ہیں"۔ اس نعرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم مقبوضہ بیت المقدس میں خاص اہداف حاصل کرنے کے درپے ہے۔ اس جشن کے انعقاد کی ذمہ داری کینسٹ کے دو اراکین ایتمار بن غفیر اور بتسلائیل سموترتیش نے سنبھال رکھی ہے۔ لہذا اس سے رقص پرچم مارچ کا سیاسی پہلو بھی واضح ہو جاتا ہے۔ حماس کے ساتھ ممکنہ جنگ کے خطرے کے باعث امریکہ جیسے غاصب صہیونی رژیم کے قریبی اتحادی نے بھی اسے یہ مارچ کینسل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔