۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا نجیب الحسن

حوزہ/ امریکہ میں ا سکول فائرنگ کے واقعات گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتے جا رہے ہیں اور ایڈ ویک نامی تعلیمی اشاعتی ادارے کے مطابق صرف گزشتہ سال میں ایسے 26 واقعات پیش آئے۔

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | کتنی دردناک خبر تھی جو کچھ دن قبل ہم نے سنی کہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے ایک پرائمری اسکول میں منگل کے دن فائرنگ کے واقعے میں 19 بچوں سمیت 21 افراد ہلاک ہو گئے۔

کون سوچ سکتا ہے جدید دنیاوی ترقی کے سب سے بڑے مرکز میں اس قسم کا حادثہ ہوگا جو دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا یہ واقعہ اپنے آپ میں جتنا اندوہناک ہے اتنا ہی قابل تامل بھی اس لئے کہ ہلاک ہونے والے دوسری سے چوتھی جماعت تک کے بچوں کی عمریں سات سے دس سال تک بتائی گئی ہیں اتنے چھوٹے بچوں کا بے دردی سے قتل اور خود قاتل کی عمر محض اٹھارہ سال یہ چیز ہم سب کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ مادی ترقی کی ہوڑ میں انسان یہ بھول گیا کہ روح کے تقاضے کیا ہیں اور کیسے اپنے بچوں کی تربیت کی جائے کہ وہ معاشرے کے محافظ بنیں انسانیت کے قاتل نہیں۔

کیا ہوا کیسے ہوا ؟

ابتدائی اطلاعات کے مطابق ۱۸ سالہ نوجوان سلواڈار راموس ایک پک اپ ٹرک چلاتے ہوئے آیا جو ’راب ایلیمنٹری سکول‘ سے چند گز کے فاصلے پر ایک کھائی سے ٹکرایا جس کے بعد راموس ٹرک سے اترا، سکول میں داخل ہوا اور فائرنگ کر دی۔ ٹیکساس ڈیپارٹمنٹ آف پبلک سیفٹی کے سارجنٹ ایرک ایسٹراڈا نے سی این این کو بتایا کہ بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے حملہ آور رائفل لیے سکول میں داخل ہوا اور اندھا دھند فائرنگ کر دی۔تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ حملہ آور کے پاس ایک ہینڈگن، اے آر 15، اور میگزین تھے۔

ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے بتایا ہے کہ راموس اوالڈے شہر کا رہائشی تھا اور اس نے متاثرہ پرائمری سکول کے قریب ہی واقع ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ پولیس کو اس بات کا بھی شبہ ہے کہ گھر سے نکلنے سے پہلے سلواڈار راموس نے اپنی دادی کو بھی گولی ماری، جو اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت خطرے میں ہے

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطلاع دی ہے کہ اسکول میں فائرنگ کے وقت سکول کے قرب و جوار میں امریکی سرحدی گشت محکمے کا ایک اہلکار موجود تھا جو فائرنگ کی آوازیں سن کر سکول میں داخل ہوا اور اس نے بندوق بردار حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اس معاملے کی تحقیقات سے منسلک ذرائع نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ شوٹر حال ہی میں 18 سال کا ہوا تھا اور اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا.

مغربی میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے مطابق اس واقعے میں ملوث نوجوان نے اس حادثے کو انجام دینے کے لئے ہینڈ گن اور رائفل کا استعمال کیا۔ اور یہ واقعہ ٹیکساس ریاست کے اوالڈے شہر میں پیش آیا جس کے دوران ایک 18 سالہ جوان نے روب ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ کرکے ۲۱ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا مبصرین کا ماننا ہے کہ امریکہ میں فائرنگ کے واقعات میں اضافے کے باوجود کسی پرائمری سکول میں، جہاں پانچ سے 11 سال کے بچے پڑھتے ہیں، ایسا واقعہ شاز و نادر ہی دیکھا گیا ہے جبکہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ میں ایسے پرتشدد واقعات میں قومی سطح پر اضافہ ہو رہا ہے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے یہ کیونکر ہوا ہر ایک حیران و دم بخود ہے چنانچہ ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ۱۸ سالہ لڑکے نے ’بھیانک اور سمجھ سے بالاتر انداز میں بچوں اور استاد کو مارا۔‘ان کے مطابق موقع پر پہنچنے والے دو اہلکار بھی گولی لگنے سے زخمی ہو گئے امریکہ کے مقامی میڈیا کے مطابق ملزم نے سکول میں فائرنگ سے قبل ممکنہ طور پر ایک خاتون کو بھی مارنے کی کوشش کی۔ بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس کے مطابق حملہ آور ایک مقامی ہائی سکول کا طالب علم تھا۔

یاد رہے کہ اوالڈے سکول ڈسٹرکٹ، جو میکسیکو کی سرحد کے قریب سین انتونیو شہر کے مغرب میں تقریبا 85 میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس سکول میں پانچ سو بچے پڑھ رہے تھے۔اوالڈے شہر میں تقریبا 16000 لوگ بستے ہیں اور مقامی ہائی سکول میں جمعے کے دن گریجوئیشن کی تقریب بھی منعقد ہونی تھی۔

مسلسل فائرنگ کے بڑھتے واقعات اور انتظامیہ کی ناکامی :

امریکہ میں ا سکول فائرنگ کے واقعات گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتے جا رہے ہیں اور ایڈ ویک نامی تعلیمی اشاعتی ادارے کے مطابق صرف گزشتہ سال میں ایسے 26 واقعات پیش آئے۔

امریکہ میں اسی وجہ سے پرائمری اور ہائی سکول میں بچوں کو ایسی مشقیں کرائی جاتی ہیں جن کا مقصد ایسی کسی صورت حال سے نمٹنا ہوتا ہے۔

اس سے قبل 2012 میں امریکی ریاست کنیٹیکٹ میں سینڈی ہک ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس واقعے میں 26 ہلاک ہونے والوں میں سے 20 ایسے تھے جن کی عمریں پانچ سے چھ سال تک تھیں۔اس حملہ کرنے والے کی عمر 20 سال تھی۔

2020 کی امریکی سرکاری رپورٹ کے مطابق فائرنگ کے زیادہ تر واقعات، تقریبا دو تہائی، ہائی سکول کے درجے کے اداروں میں ہوئے اور ایلیمنٹری سکول کی سطح پر ایسے واقعات زیادہ تر حادثاتی طور پر پیش آئے۔

یاد رہے کہ 2018 میں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے نزدیک سانتا فے ہائی سکول میں ایک طالبعلم کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 10 افراد میں پاکستانی طالبہ سبیکا عزیز شیخ بھی شامل تھیں

نیویارک ٹائمز کے مطابق اسکول میں تقریباً 500 طلبا زیر تعلیم ہیں جن میں سے 90 فیصد لاطینی نژاد امریکی ہیں۔ اخبار نے مزید لکھا کہ سکول کے 87 فیصد طلبا کا تعلق پسماندہ خاندانوں سے ہے۔

حادثہ کے محرکات و اسباب پر توجہ کی ضرورت :

ہم ان بچوں کے والدین کے غم میں شریک ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے اسکول بھیجا لیکن مارڈن جہالت نے اسکول کی یونیفارم اتار کر موت کا کفن اڑھا دیا ہر ایک اس حادثہ پر افسوس کا اظہار کر رہا ہے کاش کوئی اس کے محرکات و اسباب پر بھی بات کرتا ۔

ماں باپ کے لئے ہر بچہ جگر کا ٹکڑا ہوتا ہے کوئی بھی اپنے بچوں کو اسکول اس لئے نہیں بھیجتا ہے کہ فرعونی مارڈن تہذیب ان کو مادرِ تعلیم کی آغوش میں موت کی نیند سلا دے لیکن ایک ہی نوعیت کے واقعات کا بار بار رونما ہونا یہ ایک بڑا سوال کھڑا کرتا ہے کہ مغربی تہذیب کی چکا چوند میں انسانی روح کی چیخ و پکار کوئی کیوں نہیں سنتا جسے جب نہیں سنا جاتا تو معنویت سے عاری نفسیاتی مشکلات کا شکار نوجوان اپنے ہی دوستوں کو لقمہ اجل بنا کر اپنی تہذیب کے کھوکھلے پن کا اعلان کرتا ہے صحیح کہا تھا علامہ اقبال نے

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .