۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
رہبر معظم انقلاب

حوزہ/ قبائلی برادری کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد کی جانے والی کانفرنس کی منتظمہ کمیٹی نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ایران میں قبائلی برادری کی خدمات، وفاداری اور قربانیوں کی قدردانی کی۔ آپ نے شہیدوں اور شہادت کے جذبے کے بنیادی محرکات کے بارے میں گفتگو کی اور کچھ ہدایات دیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قبائلی برادری کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد کی جانے والی کانفرنس کی منتظمہ کمیٹی نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ایران میں قبائلی برادری کی خدمات، وفاداری اور قربانیوں کی قدردانی کی۔ آپ نے شہیدوں اور شہادت کے جذبے کے بنیادی محرکات کے بارے میں گفتگو کی اور کچھ ہدایات دیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌ اللّہ ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

قبائلی سماج، ملک اور انقلاب کا سرمایہ

برادران و خواہران عزیز! پورے ملک کے پیارے اور قبائلی سماج کے نمائندہ افراد! خوش آمدید۔ آپ سبھی کی خدمت میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس کانفرنس اور خراج عقیدت پیش کرنے کے اس پروگرام کے انعقاد پر تہہ دل سے آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ کا یہ کام بہت اچھا کام ہے، صحیح کام ہے۔ آپ خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ پروگرام منعقد کر رہے ہیں اور ہماری یہ نشست ملک کے تمام لوگوں کی توجہ، قبائلیوں کی جانب مبذول کرانے کا ایک موقع بھی ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ قبائلی برادری، انقلاب کا سرمایہ ہے، ملک کا سرمایہ ہے۔(2) لوگوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے یہاں قبائلیوں کے متعدد طبقے ہیں جو ملک کا سرمایہ ہیں، یہ چیز لوگوں کو ہمیشہ یاد رہنی چاہیے۔ ہماری آج کی اس ملاقات اور نشست کا ایک فائدہ، جسے آپ اس کے موقع پر دیکھیں گے(3)، یہ ہے کہ یہ ایرانی قوم کو قبائلیوں اور ان کی اہمیت سے آشنا کرے گي۔

ثقافتی پروگراموں کے نتیجے اور عوامی تاثرات کا جائزہ لینا دشوار کام ہے

میں قبائلیوں کے بارے میں اختصار سے کچھ عرض کروں گا لیکن اس سے پہلے ان برادران نے جو باتیں کہیں ہیں ان کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا، یہ بہت اچھی باتیں ہیں، ان دو بھائيوں نے اس کانفرنس یا ان بیس برسوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کے اجلاسوں کے بارے میں جن کاموں کا ذکر کیا، وہ واقعی گرانقدر ہیں۔ میں نے انجام شدہ کاموں کے بارے میں اس راہداری میں جو تصاویر لگائي گئي ہیں، ان سبھی کو بغور دیکھا، اچھے کام انجام پائے ہیں۔ جن تین ترجیحی کارکردگيوں کا انھوں نے ذکر کیا، وہ تینوں ہی اہم ہیں لیکن یہاں ایک نکتہ ہے اور وہ یہ کہ جب آپ کسی فیملی کو جہیز کا سامان دیتے ہیں تو یہ سامان اس تک پہنچتا ہے اور وہ اسے استعمال کرتی ہے، آپ کو بھی پتہ چلتا ہے کہ اس فیملی نے استفادہ کیا ہے۔ یہ نقدی کی مانند ہے۔ یہاں تک کہ جو چیز اتنی نقد بھی نہیں ہے، مثال کے طور پر فرض کیجیے، پودا لگانا، آپ پودے لگاتے ہیں -میں نے اس کی تصویریں یہاں دیکھیں- دو سال کے بعد، پانچ سال کے بعد، دس سال کے بعد یہ پودے تنومند ہو جاتے ہیں اور ایک جنگل، ایک باغ اور ایک ہری بھری جگہ تیار ہو جاتی ہے، اس کا اثر بھی آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ثقافتی کاموں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے کتابیں شائع کیں، فلمیں بنوائيں، آپ کی اس کتاب اور اس فلم کا نتیجہ کیا ہے؟ یہ اہم ہے، یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، ثقافتی کام کی دشواری یہی ہے، کلچرل کام کی مشکل یہی ہے کہ آپ اس کام کے لئے جس مقدار میں محنت ہوئی ہے اور مادی سرگرمیاں انجام دی گئی ہیں ان کو معیار قرار دیکر ثقافتی کام کے نتیجے کو یقینی نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کتاب شائع کرتا ہے، ممکن ہے اس کتاب کو سو لوگ پڑھیں، ممکن ہے دس ہزار لوگ پڑھیں، ممکن ہے اس کا پہلا ایڈیشن ہی پورا نہ بک پائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا سواں ایڈیشن بھی چھپ جائے، آپ اس کا کیا کریں گے؟ کس طرح کام کریں گے کہ یہ ثقافتی کام نتیجہ خیز بنے؟

آج ہمیں قبائلیوں سمیت ایرانی قوم کے ہر طبقے میں، ہر ہر فرد کے لیے ہر چیز سے زیادہ ثقافتی کام کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم کے دشمن، اسلام کے دشمن، ملک کے دشمن، اسلامی جمہوریہ کے دشمن، آج سب سے زیادہ سافٹ وار پر کام کر رہے ہیں، شاید بعد میں، میں اس پر مختصر سی روشنی ڈالوں۔ الغرض جو رفقائے کار، خراج عقیدت پیش کرنے کے اس طرح کے پروگرام کر رہے ہیں اور ثقافتی کاموں پر بھی توجہ دے رہے ہیں، انھیں اس نکتے کی طرف توجہ دینی چاہیے جو میں نے عرض کیا: آپ کے کام کا فیڈ بیک کیا رہا؟ آپ

لوگوں کے کام کا نتیجہ کیا ہوا؟ قبائلی معاشرے پر اس کے اثرات کتنے ہیں؟

ایران کے قبائلی، قوم کے سب سے وفادار طبقوں میں سے ایک

ایران کے قبائلی، ایرانی قوم کے سب سے وفادار طبقوں میں سے ایک ہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں "سب سے وفادار طبقوں میں سے ایک" تو یہ چیز لفاظی اور تخیل نہیں ہے، یہ چیز، ان حقائق کے پیش نظر کہی جا رہی ہے جو ملک میں مشاہدے میں آئے اور ہم ان سے واقف ہیں۔ ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں بھی اور پچھلے دو تین سو سال کی تاریخ میں بھی ایسے قصے موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکیوں خاص طور پر انگریزوں نے قبائلیوں میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لیے کوشش کی تھی، بڑے عجیب و غریب کام کئے، اگر وقت ہوتا اور موقع ہوتا تو ان کا ذکر کرنا مناسب تھا، بہرحال آپ کتابوں میں پڑھیے۔ غیر ملکیوں نے کوشش کی کہ قبائلیوں میں اثر و رسوخ پیدا کر لیں اور انھیں کسی طرح سے اپنے وطن سے غداری کرنے کی ترغیب دلائيں - بہت سی شکلوں میں، علیحدگي پسندی کے جذبات ابھار کر، خانہ جنگي کے ذریعے، مختلف طرح کے دوسرے کاموں کے ذریعے -لیکن وہ انھیں، اپنے مد نظر راستے پر آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوئے، ہم جو یہ "سب سے باوفا" اور "سب سے زیادہ وفاداروں میں سے ایک" کہہ رہے ہیں، وہ اس کی یہ وجہ ہے۔

انقلاب اور مقدس دفاع کے امتحان میں قبائلیوں کی زبردست کامیابی

اسی حالیہ عرصے میں یعنی انقلاب کے زمانے میں، مقدس دفاع کے زمانے میں، مقدس دفاع کے بعد کے زمانے میں بھی قبائلی، امتحان میں بہترین طریقے سے کامیاب رہے ہیں۔ یہی بات کہ قبائلی معاشرے کے درمیان سے گيارہ ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ہیں، بہت اہم ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہمارے سارے قبائلی، سرحد کے قریب تھے، خطرے میں تھے، البتہ کچھ سرحد کے قریب تھے اور مقدس دفاع میں فورا ہی وہ خطرے میں آ گئے تھے لیکن بہت سے وہاں نہیں تھے، ملک کے وسط میں تھے اور انھیں براہ راست کوئي خطرہ بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ دفاع مقدس کے میدان میں گئے، انھوں نے دفاع کیا، کوشش کی، کام کیا۔

دین اور دینداری، قبائلیوں کے اتحاد، پیشرفت اور ایثار کا سرچشمہ

کون سے عناصر اس بات کا سبب بنے کہ ہمارے ملک کے قبائلی، مختلف قومیتوں اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود، اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں اور اسلام کی خدمت کریں، ملک کی خدمت کریں؟ تسبیح کا یہ دھاگا، کیا تھا؟ دین اور دینداری! دین اتحاد کا سبب ہے، پیشرفت کا سبب ہے، قربانی اور ایثار کا سبب ہے، دین کے عنصر نے قبائلیوں کو ترغیب دلائي کہ وہ اس طرح میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں، یہ قومیتی تنوع اور اسی طرح کی دوسری باتیں، ان کے درمیان جدائي نہیں ڈال سکیں، اختلاف نہیں پیدا کر سکیں، دین کا اس طرح کا اثر ہوتا ہے۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے انقلاب کے اہداف کی پیشرفت کے لیے دین کے عنصر سے استفادہ

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی عنصر سے استفادہ کرکے، اس عظیم انقلاب کو وجود عطا کیا اور اسے کامیاب بنایا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد اسی عنصر کے ذریعے ملک کی حفاظت کی۔ یقین رکھیے کہ اگر دین کا عنصر نہ ہوتا تو انقلاب کامیاب نہ ہوتا۔ کوئي بھی دوسرا عنصر، ان نوجوانوں کو، جو خالی ہاتھ سڑکوں پر اور گولیوں کے سامنے آ جاتے تھے اور بندوق کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے تھے، اس سخت اور دشوار میدان میں نہیں لا سکتا تھا، کوئي بھی دوسرا عنصر یہ نہیں کر سکتا تھا، مذہبی عقیدہ انھیں میدان میں لایا۔ اس انقلاب کی کامیابی کے لیے امام خمینی نے اس سے استفادہ کیا، پھر انھوں نے عوام کے ایمان کے عنصر سے استفادہ کیا تاکہ اس ملک کو تحفظ عطا کریں۔ انقلاب کے بعد اس ملک پر حریصانہ نگاہیں پڑنے لگيں، لوگ اسے للچائي نظروں سے

دیکھنے لگے۔ ایسا نہیں تھا کہ خود بخود صدام کی کھوپڑی میں اچانک یہ بات آ گئي کہ وہ اٹھ کر حملہ کر دے، جی نہیں! اسے ترغیب دلائي گئي تھی، ورغلایا گيا تھا، اسے امید دلائي گئي تھی، اس سے وعدے کیے گئے تھے، انھوں نے اپنے وعدوں کو پورا بھی کیا، اسے پیسے دیے، ہتھیار دیے، جنگ کے نقشے دیے، یہ سب اس لیے کیا تاکہ وہ حملہ کرے۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ آ کر ایک حصے کو ملک سے الگ کر دے، بلکہ مقصد یہ تھا کہ وہ ملک کے ایک حصے کو الگ کر کے یا دوسرے مختلف طریقوں سے، اسلامی انقلاب کو ختم کر دے! یہ اصل ہدف تھا۔ امریکا اس کی پشت پر تھا، برطانیہ اس کی پشت پر تھا، فرانس اس کے پیچھے تھا، بنیاد پرست حکومتیں اس کی پشت پر تھیں اور جو بھی ان کے پٹھو تھے وہ صدام کی پشت پناہی کر رہے تھے، یہ سب، آکر ایران کے حصے بخرے کرنا چاہتے تھے، یہ چاہتے تھے کہ ملک کو واپس امریکا کے تسلط میں لوٹا دیں، یہ ایرانی قوم کو غلام بنانا چاہتے تھے، امام خمینی نے یہ نہیں ہونے دیا، کس چیز کے ذریعے؟ دین کے ذریعے، دین کے وسیلے سے، دین اس طرح کا ہے، دینی اعتقاد کا اثر اس طرح کا ہوتا ہے۔

شہداء، جذبہ ایمان کے حسین و پرشکوہ نمونے

آپ کے شہداء بھی اسی دینی اور مذہبی عقیدے کے خوبصورت اور پرشکوہ نمونے ہیں۔ آپ نے جن گيارہ ہزار شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، وہ سب درحقیقت آپ کے ایمان کی گہری تاثیر کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہ جوان اپنے گھر میں، اپنی زندگي میں، اپنے ماحول میں، اپنے والدین کے پاس، اپنی بیوی کے پاس، اپنے بچوں کے پاس رہ سکتا ہے، زندگي کی لذتیں حاصل کر سکتا ہے – جہاں تک ممکن ہے– لیکن اس نے یہ کام نہیں کیا، سب کو چھوڑ کر چلا گيا، اپنے پیارے بچے کو چھوڑ دیا، اپنی پیاری بیوی کو چھوڑ دیا، اس پر جان چھڑکنے والے ماں باپ کو چھوڑ دیا، کس لیے؟ محرّک کیا تھا؟ محرّک، دین تھا۔ یا بہادر سپاہی تھا اور میدان جنگ سے واپس آ گیا، یا جہاد میں اس کا کوئي جسمانی عضو ناقص ہو گيا یا وہ شہید ہو گيا۔ اس کے والدین، اس مصیبت کو، اس سختی کو، دل میں لگی اس آگ کو بجھانے میں کامیاب ہو گئے، انھیں قرار آ گيا، یہ دین کی برکت سے ہوا، دین کا اثر تھا۔

خدا سے سودا، شہداء کے اہل خانہ کے صبر و قرار کا سبب

ہمارے ایک دوست کا بیٹا ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گيا تھا، وہ کچھ غمزدہ تھے، تین شہیدوں کا والد بھی وہیں موجود تھے، میں نے کہا کہ تمھارا ایک بیٹا گيا ہے، ان صاحب کے تین بیٹے جا چکے ہیں، اس نے کہا کہ جناب ان کے بیٹے شہید ہوئے ہیں، اس میں غم نہیں ہے! دیکھیے، صحیح بات بھی ہے، جی ہاں! دل میں تکلیف ہے – ماں باپ کے دل پر جو زخم لگتا ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا – لیکن شہداء کے اہل خانہ صبر کرتے ہیں، تسلی رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا یہ جوان اللہ کے پاس ہے، زندہ ہے، وہ اللہ سے سودا کرتے ہیں۔ اِنَّ اللَّہَ اشتَرىٰ‏ مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَھُم وَ اَموالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّۃَ يُقاتِلونَ فی سَبيلِ اللَّہِ فَيَقتُلونَ وَ يُقتَلون.(4) دونوں ہی کا اجر ہے: اگر دشمن کو جانی نقصان پہنچائيں، تب بھی اجر ہے اور اگر آپ خود دشمن کے ہاتھوں مارے جائيں، تب بھی اجر ہے۔ ان لوگوں نے خدا سے سودا کیا ہے، اس جوان نے بھی خدا سے سودا کیا ہے اور اس کے والدین اور بیوی نے بھی خدا سے سودا کیا ہے۔ اس معاملے میں دین کے عنصر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ملک کی سیکورٹی اور حفاظت، قربانیوں اور شہادتوں کا ثمر

اب بعض لوگ جو مختلف تجزیے کرتے ہیں، ان میں کہتے ہیں کہ یہ جوان گيا تاکہ اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے، امن و سلامتی کا تحفظ کرے، ٹھیک ہے، واضح سی بات ہے، ملک کی سلامتی، ملک کی حفاظت انہی قربانیوں کی دین ہے، انہی شہادتوں، اپنے اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کرنے، مجاہدت اور جنگ کا نتیجہ ہے، اس میں کوئي شک نہیں ہے کہ ملک میں امن و سلامی کا انحصار اسی پر ہے لیکن اس کا محرک دین تھا، خدا تھا، اس کا محرک دین سے کمتر کسی بھی شئے کو نہیں سمجھنا چاہیے۔ درحقیقت ان لوگوں نے

خدا کے لیے قدم بڑھایا، خدا کے لیے کام کیا اور شہیدوں کی عزت اور ان کا افتخار بھی اسی وجہ سے ہے۔ شہیدوں کی عزت اسی وجہ سے ہے۔ کچھ لوگ ہیں جن کا دین سے کوئي سروکار نہیں ہے، وہ ان شہادتوں کا بھی انکار نہیں کر سکتے، تو وہ محرّکات میں تحریف کر دیتے ہیں اور دشمن کی سافٹ وار کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک یہی ہے کہ دین کے محرک کو، جو سب سے اہم محرک ہے، سب سے بڑا محرک ہے، عوام کے درمیان سے مٹا دیں یا اسے کمزور بنا دیں۔

دینی محرک کو کمزور بنانا، دشمن کی سافٹ وار کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک

آج ملک میں دینی روایات اور مذہبی مقدسات کے خلاف جو بھی کام انجام پاتا ہے، اس کے پیچھے کوئي سیاسی محرّک ہوتا ہے، ممکن ہے کہ خود اس شخص کو علم نہ ہو لیکن یہ چیز ہے اور اسے اس راہ پر لگایا گيا ہے۔ دین کو کمزور بنانا، مذہبی روایات کو کمزور کرنا، دینی شعائر اور مناسک کو کمزور کرنا، ان پر سوالیہ نشان لگانا، انھیں غیر منطقی ظاہر کرنا، یہ سب، ایسی چیزیں ہیں جن سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جو شخص یہ کام کر رہا ہے، اسے اس کا پتہ ہی نہ ہو، وہ اس طرف متوجہ نہ ہو، جی ہاں! کبھی کبھی کچھ لوگ غفلت میں کوئي کام کر بیٹھتے ہیں۔

جذبہ امید اور ملک کی انتظامیہ کو کمزور بنانے کے لیے دشمن کی چالیں اور منصوبہ بندی

آج دشمن کی کوشش ہے کہ دینی جذبے اور ایمان کو کمزور کر دے، امید کو کمزور کر دے، مستقبل اور ملک کی انتظامیہ کی طرف سے لوگوں کی امید ختم کر دے، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں، ان پر کام کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر کیا کیا جائے کہ لوگوں کو یقین آ جائے کہ ان کا کوئي مستقبل نہیں ہے، مستقبل تاریک ہے اور بند گلی میں پہنچ چکا ہے، اس کا پروگرام بنا رہے ہیں، اس پر پروگرام تیار کر رہے ہیں، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا پر اور افسوس کہ کبھی کبھی ملک کے اندر سے بھی لوگوں کے درمیان ایسی باتیں پہنچائي جاتی ہیں کہ وہ اس نتیجے تک پہنچ جائيں کہ راستے بند ہو چکے ہیں، ہم غلط راستے پر چل رہے ہیں یا لوگ اس نتیجے تک پہنچیں کہ ملک کے عہدیداران کو اور ملک کی انتظامیہ کو ملک چلانا نہیں آتا۔ اتنی زیادہ محنت کی جا رہی ہے، اتنی زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کوششوں کے مقابلے میں ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ فرض کیجیے، مثال کے طور پر عرض کروں کی ملک کی پولیس فورس چوری کے اڑتالیس گھنٹے بعد کچھ چوروں کو پکڑ لیتی ہے، تو ان پولیس والوں کو شاباشی دی جانی چاہیے لیکن خود ہمارے قومی میڈیا میں اس طرح سے باتیں کی جاتی ہیں گویا تعریف کے بجائے ان کی تنبیہ کی جا رہی ہے! جان بوجھ کر نہیں –یہ بات یقینی ہے کہ ایسا جان بوجھ کر نہیں ہوتا– لیکن غفلت ہے، یہ غفلتیں دشمن کے فائدے میں ہیں۔ جو بھی عوام کو مستقبل کی طرف سے ناامید کرے، وہ دشمن کے فائدے کے لیے کام کر رہا ہے، چاہے اسے معلوم ہو یا نہ ہو۔ جو بھی لوگوں کے ایمان کو کمزور کر رہا ہے، وہ

دشمن کے حق میں کام کر رہا ہے، چاہے جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ جو بھی لوگوں کو ملک کے عہدیداروں کے کام، کوشش اور پروگراموں کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا کرے وہ دشمن کے فائدے میں کام کر رہا ہے، چاہے دانستہ یا نادانستہ۔

ملک کے قبائلیوں کی مشکلات کی شناخت اور ان کا تصفیہ، رضاکار فورس اور ملک کے تمام عہدیداروں کی ذمہ داری

رضاکار فورس کے عہدیداران بھی، جو قبائلیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، اچھا اور گرانقدر کام کر رہے ہیں، جن کاموں کا دوستوں نے ذکر کیا، ان کے نمونوں کا ہم نے یہاں تصویروں میں مشاہدہ کیا ہے، انھیں آگے بڑھائيے، یہ کام بڑے قیمتی ہیں۔ البتہ اس کی ذمہ داری صرف رضاکار فورس پر نہیں ہے، اس کی کچھ حدیں ہیں، کچھ محدود وسائل ہیں، وہ اپنے وسائل کی حد تک کوشش کرتی ہے، ملک کے تمام عہدیداروں کو کوشش کرنی چاہیے، متعلقہ عہدیداروں کو چاہیے کہ قبائلیوں کی مشکلات کی شناخت کریں، انھیں دور کریں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، خاص طور پر ثقافتی مسائل پر غور کریں، ان پر کام کریں، پروگرام تیار کریں تاکہ ان شاء اللہ صحیح پروگرام انجام پا سکے۔

پرامید رہنا اور مایوس نہ ہونا، شہیدوں اور جنگی زخمیوں کا سبق

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو توفیق عطا کرے اور آپ کے شہیدوں کے درجات بلند کرے۔ آپ کے شہداء اور ملک کے تمام شہداء وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ پرامید رہنا چاہیے، یعنی ہمارے جانباز ایسے حالات میں میدان جنگ میں اترے تھے کہ واقعی عام حساب کتاب سے فتح کی کوئي امید نہیں تھی، واقعی جیت کی کوئي امید نہیں تھی۔ صدام کا حملہ شروع ہوئے تیسرا یا چوتھا دن تھا کہ دزفول، اہواز اور ایسی ہی دوسری جگہوں سے یکے بعد دیگرے خبریں پہنچنے لگی تھیں، میں امام خمینی کے پاس گيا اور ان سے اجازت لی اور کہا کہ میں وہاں جا رہا ہوں شاید لوگوں کو بھرتی کر سکوں، مجھے یقین تھا – یقین کے قریب، یقین جیسی کوئي چیز – کہ واپسی نہیں ہوگي؛ ہم وہاں گئے، ذہن میں یہ تھا کہ کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن آپ نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ نے، ہمارے جوانوں نے، امام خمینی کی قیادت نے کچھ اس طرح سے کام کیا کہ یہ مقدس دفاع، اسلامی جمہوریہ کی مکمل سربلندی پر منتج ہوا، دشمن ذلیل ہوا، اس کی ناک زمین پر رگڑ دی گئي۔ اس نے ہمارے جانبازوں کو امید عطا کی؛ مطلب یہ کہ ان تمام حالات میں، یہاں تک کہ جنگ کے ابتدائي حالات جیسی صورتحال میں بھی انسان کو اللہ کی مدد اور اپنی کوشش کی جانب سے پرامید رہنا چاہیے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کے ساتھ انہی امیدوں کے مطابق عمل کرے، آپ کو توفیق عطا کرے، آپ کی مدد کرے، جو کوشش آپ کر رہے ہیں، ان شاء اللہ اس کا مطلوبہ نتیجہ آپ کو حاصل ہو۔ ہمارا سلام ملک کے تمام قبائلیوں تک پہنچا دیجیے، جن کے آپ نمائندے ہیں۔

والسّلام‌ علیکم‌ و رحمۃ‌ اللّہ ‌و ‌برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں منتظمین میں سے دو افراد نے کچھ اہم باتیں بیان کیں۔

(2) صحیفۂ امام، جلد 8، صفحہ 19، کہگیلویہ و بویر احمد کے قبائلیوں سے ملاقات میں تقریر، 29 مئي 1979

(3) یہ سہ روزہ کانفرنس چہار محال و بختیاری صوبے میں 19 جون 2022 سے منعقد ہوئی۔

(4) سورۂ توبہ، آيت 111، حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .