۲۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۹ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 17, 2024
News ID: 382932
1 اگست 2022 - 20:43
محمدباقر مقدسی

حوزہ / حضرت آیت اللہ محمد باقر مقدسی نے اپنے محرم الحرام کے ایک پیغام میں کہا: اسلامی سال کے پہلا مہینہ، ہمیں امام حسین (ع)  اور اپ کے باوفا اصحاب کی لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ محمد باقر مقدسی نے اپنے محرم الحرام کے ایک پیغام میں کہا: اسلامی سال کے پہلا مہینہ، ہمیں امام حسین (ع) اور اپ کے باوفا اصحاب کی لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔

انہوں نے کہا: محرم الحرام وہ مہینہ ہے جس میں نواسہ رسول (ص) جگر گوشہ علی (ع) و صدیقہ طاہرہ (س) نے اپنا گھر بار لٹا کر زمانے کے ظالم اور جابر حکمران سے مقابلہ کرتے ہوئے دین خدا کو زندہ کیا۔

آج اگر اسلام کا روشن چہرہ ہمارے سامنے ہے تو امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثار ساتھیوں کی قربانی اور جدوجہد کا نتیجہ ہے لہذا محرم کو صرف ایک رسم کے طور پر نہیں منانا چاہیے بلکہ یہ شعائر اسلامی ہے اس کی تعظیم اور تکریم اسی انداز میں کرنے کی ضرورت ہے جو امام معصوم علیہ السلام کی شان کے منافی نہ ہو۔

سن 61ہجری کا یہ ناخوشگوار واقعہ اگرچہ بهت تلخ ہے مگر بهت سارے مفاہیم قرآنی اور دینی کو امام اور ان کے جان بکف اصحاف نے عملی طور پر سب کو بتا یا۔ وفا، شجاعت، امام وقت کی تشخیص پھر اس کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا، عفاف و حجاب، اطاعت و بندگی اور ایثار و قربانی جیسے مفاہیم کی عملی تفسیر پیش کی۔

ان مقدس مفاہیم میں سے ایک شہادت ہے۔ بلاشبہ اسلام میں شہداء کا مقام بہت بلند ہے اور اس سے بڑا کوئی مقام نہیں ہے اور ہر قوم و ملت اپنے شہداء کا خاص احترام کرتی ہے لیکن بلا مبالغہ اسلام نے راہ خدا کے شہداء کو جو احترام دیا ہے وہ بے مثال ہے۔

اس تناظر میں قرآن میں ایک ایسی تعبیر شہید کے بارے میں موجود ہے جو دوسرے کسی کے بارے میں استعمال نہیں کی گئی ہے: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور ان کو ان کے رب کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے"۔

احادیث میں شہداء کے مقام کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ مرحوم کلینی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: " ہر نیکی سے بڑھ کر نیکی اس وقت تک ہے جب تک کہ کوئی شخص راہ خدا میں مارا نہ جائے، پس اگر وہ راہ خدا میں مارا جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی بھلائی نہیں ہے"۔

قرآن کریم کچھ مردہ لوگوں کو زندہ اور بہت سے زندہ لوگوں کو مردہ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر راہِ حق میں شہید ہونے والوں کے بارے میں جو بظاہر مردہ ہیں، فرماتا ہے: ’’ اے نبی! راہِ خدا میں مارے جانے والوں کو کبھی مردہ مت سمجھو! بلکہ وہ زندہ ہیں اور ان کو ان کے رب کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے"۔ لہٰذا قرآن کے مطابق شہداء زندہ ہیں کیونکہ ان میں زندہ انسان کا اثر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دین اور اسلام کو تقویت دیتے ہیں کیونکہ ان کے کارنامے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ کیا زندگی، زندگی کے اثرات کو ظاہر کرنے کے سوا کچھ ہے؟

بہت سے الفاظ کے مختلف معنی ہوتے ہیں، جیسے کہ لفظ "زندگی" اور "موت"، جس کا مادی نقطۂ نظر سے مطلب صرف جسمانی زندگی اور موت ہے، یعنی جب دل کام کرتا ہے اور خون اعضاء تک پہنچتا ہے اور حس و حرکت انسانی جسم میں ہوتی ہے تو وہ زندہ ہے لیکن جب ان حرکتوں کو روک دیا جاتا ہے تو یہ موت کا ثبوت ہے لیکن قرآن کے نقطۂ نظر سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو جسمانی طور پر زندہ ہیں لیکن مرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔

وہ شخص جو بظاہر زندہ ہے لیکن شہوت میں اس قدر مگن ہے کہ نہ مظلوموں کی فریاد سنتا ہے، نہ حق گوئی کی آواز سنتا ہے، نہ غریبوں کی مدد کرتا ہے اور نہ ہی صفحہ تخلیق پر خدا کی عظمت کے آثار نظر آتے ہیں تو ایسا شخص قرآن کی منطق میں مردہ ہے لیکن وہ لوگ جن کے اعمال مرنے کے بعد دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور جن کے افکار اور خطوط دوسروں کے لیے رہنما، رول ماڈل اور مثالیں ہیں ایسے لوگوں کو ہمیشہ زندہ سمجھا جاتا ہے۔ جیسے شہدا اور تاریخ میں شہداء کربلا کو منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کے ذکر کو انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منانا چاہئے اور ذاکرین اور خطباء کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی تقاریر میں امام علیہ السلام کے اهداف پر روشنی ڈالیں اور امت محمدی (ص) کو منظم کرنے اور انہیں اتحاد و وحدت کی طرف دعوت دیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .