حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے دفتر نے مغربی کابل میں عزاداروں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حملوں کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی رپورٹر رچرڈ بینیٹ نے مغربی کابل کے علاقے پل سوختہ میں ہونے والے بم دھماکوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی کابل میں ہزارہ برادری کے ایک پرہجوم بازار میں دہشت گردانہ حملے شیعوں کے خلاف داعش کے حملوں کی ایک کڑی تھی، ان حملوں کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے۔
دوسری جانب بیرون ملک مقیم کئی افغان سیاست دانوں نے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کیا، افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ دفتر نے کہا کہ شیعوں پر حملے طالبان حکومت کی برادرانہ بے حسی کی سنگین علامت ہیں۔
افغانستان میں شیعہ برادری پر تواتر سے حملے ہوتے رہتے ہیں جب کہ محرم اور صفر میں جب شیعہ برادری عزاداری امام حسین میں مصروف ہوتے ہیں تو ان حملوں میں اورشدت آ جاتی ہے، اور یہ بات طالبان کی حکومت کو بھی اچھی طرح معلوم ہے،یعنی وہ پہلے سے حفاظتی انتظامات کر سکتی تھی۔ طالبان کی حکومت اگست ۲۰۲۱ میں اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ افغانستان میں تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، لیکن اس سلسلے میں کافی لا پرواہی برتی گئی ہے۔
افغانستان کے شیعوں پر ایک سال کے دوران متعدد بار حملے ہوئے ہیں لیکن طالبان کی حکومت سکیورٹی کے معاملے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے، کہا جا رہا تھا کہ بتدریج داعش کے حملے کم ہوں گے لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ داعش کے غیر انسانی حملے کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ سیکورٹی مسائل اور مشکلات پیدا کرنے کے پیچھے داعش کا مقصد شیعہ کمیونٹی کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے داعش کی جانب سے شیعوں کی نماز، جمعہ اور دیگر تقریبات پر حملے کیے گئے ہیں، طالبان حکومت نے کہا تھا کہ محرم اور صفر میں عزاداری کے پروگرام پرامن طریقے سے منعقد ہوں گے اور سکیورٹی کے انتظامات کیے جائیں گے لیکن شیعوں پر حالیہ دہشت گردانہ حملوں نے ثابت کر دیا کہ طالبان حکومت اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔