حیدرآباد دکن(تلنگانہ )ہندوستان/ مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن (تلنگانہ) ہندوستان کے سرپرست حجۃ الاسلام و المسلمین علی حیدر فرشتہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وقف اسلامی شریعت کا ایک اہم ترین جزء ہے اور مسلمانوں کی ملّی زندگی کا روشن باب ہے۔وقف کا مطلب فقہی اصطلاح میں یہ ہے کہ کسی چیز کا مالک اس پر سے اپنا حق ختم کردے اور اسے اللہ کے لئے خاص کردے۔چنانچہ اسے فروخت نہ کیا جا سکے،نہ رہن رکھا جا سکے،نہ عاریۃ ً دیا جا سکے۔
وقف کی متعدد قسمیں ہیں،جیسے:(۱)وقف عام (۲) وقف خاص (۳) وقف مشترک۔
اسلامی تاریخ سے ثابت ہے کہ متعدد اور مختلف اغراض و مقاصد کے لئے اوقاف قائم کئے گئے ،مثلاً دینی تعلیم کے لئے: مدارس ،جامعات،لائبریریاں وغیرہ۔ عبادت کے لئے : مساجد ،امامباڑے،عاشور خانے وغیرہ۔ علاج و معالجے کے لئے: اسپتال ،دواخانے،شفا خانے وغیرہ ۔مسافروں کی راحت رسانی کے لئے : سرائیں،ہوٹل،مسافر خانے وغیرہ وغیرہ۔
اوقاف کا تحفظ مسلمانوں پر لازم ہے۔ جو چیز جس مقصد کے لئے وقف کی گئی ہے منشائے واقف کے مطابق اس کا استعمال ہو نا چاہئیے۔یعنی اگر کوئی زمین ،جائیداد دینی تعلیم کے لئے وقف کی گئی ہے تو وہا ں تعلیم سے متعلق ہی امور انجام دئے جائیں نہ کہ تعلیم کو پس پشت ڈال کر شادی بیاہ کا ہال ،یا دوکان وغیرہ بنا کر دنیاوی دولت کمانے کا ذریعہ بنانا۔یا اور اسی طرح۔
مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن (تلنگانہ) ہندوستان کی جانب سے قوم کے ارباب حل و عقد یعنی علماء و دانشور حضرات اور ارباب حکومت یعنی محکمہ عدلیہ و منتظمہ کے ذمہ داران اور وقف بورڈوں کے آفیسروں سے دردمندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ تحفظ اوقاف کا معقول بند و بست کیا جائے۔اسلاف کی وقف کردہ جائیدادوں کو بد عنوانیوں سے پاک و صاف رکھا جائے۔اوقاف کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
اگر کہیں کسی وقف کی پراپرٹی کو ناجائز طریقے سے کسی کے بھی ذریعے سے نقصان پہونچ رہا ہو تو اس کے خلاف تمام علماء و مومنین و دانشور حضرات اخلاقی بنیاد پر موثر انداز میں مناسب طور سے آواز احتجا ج بلند کریں۔اور اگر حکومت کی طرف سے کورٹ کی اجازت کے بعد سڑکوں کی توسیع کے نام پر کسی وقف کی عمارت وغیرہ کا کچھ حصہ منہدم کیا جائے تو اس کا معقول معاوضہ طلب کیا جائے کہ دوسری جگہ اس سے بہتر امامباڑہ،عاشور خانہ،اسپتال،مسافر خانہ وغیرہ بنوایا جا سکے۔