تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلامی تاریخ کی متعدد کتب میں یہ تذکرہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے کہ ”ایک دن حضرت عباس بن عبدالمطلب‘ یذید بن قعنب اور بنی ہاشم کے کچھ لوگ قبیلہ بنی العزٰی کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے تھے کہ فاطمہ بنت اسد اچانک مسجد کے دروازے سے داخل ہوئیں جو کہ حاملہ تھی اور حضرت علی ؑ ان کے بطن میں موجود تھے۔ حضرت فاطمہ بنت اسد کے چہرے سے دردِ زہ نمایاں تھا۔ وہ اسی حالت میں خانہ کعبہ کے دروازے کے برابر کھڑی ہو گئیں۔ آسمان کی طرف رخ کیا اور کہنے لگیں ”خدایا میں تجھ پر ایمان رکھتی ہوں اور تیرے ہر پیغمبر اور رسول پر اور ہر اُ س کتاب پر جو تیری طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اور اپنے جد حضرت ابراہیم خلیل ؑ کہ جس نے کعبے کو بنایا ہے کی باتوں کی تصدیق کرتی ہوں اور تجھ سے سوال کرتی ہوں اس گھر کے واسطے اور اس فرزند کے واسطے جو میرے بطن میں پل رہا ہے اور میرے ساتھ باتیں کرتا ہے۔ اور باتیں کرنے میں میرا مونس و مددگار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تیرے جلال و عظمت کی نشانی ہے لہذا میرے اوپر اس بچے کی ولادت آسان فرما! عباس اور یذید بن قعنب کہتے ہیں جب فاطمہ ؑ یہ دعا کرکے فارغ ہوئیں تو ہم نے دیکھا کہ خانہ کعبہ کی دیوار میں شگاف ہوا تو فاطمہ اس کے اندر چلی گئیں اور پھر خدا کے حکم سے یہ شگاف آپس میں مل گیا۔ ہم نے جب دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو ہم ناکام رہے۔ ہم نے ہر طرح کا طریقہ اپنایا مگر دروازہ نہ کھل سکا تو ہم جان گئے کہ یہ کام خدا کی طرف سے واقع ہوا ہے۔ اس کے بعد فاطمہ تین روز تک کعبے کے اندر رہیں۔ کئی عرصہ مکہ کے لوگ اس واقعہ کو یاد کرکے اور عورتیں اس حقیقت کو بیان کرکے تعجب کیا کرتے تھے۔ تا اینکہ چوتھا دن آن نکلا تو وہی شگاف والی جگہ دوبارہ کھل گئی اور فاطمہ بنت اسد اپنے بیٹے اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب کو ہاتھوں میں لے کر باہر آئیں اور ساتھ ساتھ کہہ رہی تھیں کہ ”اے لوگو حق تعالیٰ نے مجھے اپنی مخلوق میں خاص فضیلت عطا کی ہے۔ مجھ سے پہلے جن خواتین کا انتخاب کیا گیا ان میں آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران پر اللہ تعالیٰ نے مجھے سبقت دی ہے۔ اسی طرح ان تمام خواتین پر جو مجھ سے پہلے دنیا میں آئی ہیں۔ کیونکہ میں نے اپنے فرزند کو اللہ تعالیٰ کے منتخب گھر میں جنم دیا ہے اور تین دن میں وہاں بڑے احترام سے رہی اور بہشت کے میوے اور جنت کے کھانے تناول کرتی رہی۔ اور جب فرزند کو لے کر باہر آنا چاہا تو ہاتف ِ غیبی کی آواز آئی اے فاطمہ اپنے اس فرزند کا نام علی رکھو کیونکہ میں خداوند علی و اعلیٰ ہوں اس کو اپنی عزت و جلال و قدرت سے پیدا کیا ہے اور اپنے مقدس نام سے اس کا نام مشتق کر دیا ہے۔اس کو اپنے چھپے ہوئے علوم سے آگاہ کیا ہے۔ یہ میرے گھر پیدا ہوا ہے یہ ہی میرے گھر پر اذان دینے والا اور بت توڑنے والا پہلا انسان ہوگا۔“
جس نے براہ راست اللہ تعالیٰ کی میزبانی میں اس جہان میں آنکھیں کھولی ہوں وہ کیسے اپنے انوار سے عالم کو روشن نہیں کرے گا؟ جس نے نبی آخرالزمان ﷺ اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کی براہ راست نگرانی اور سرپرستی میں تربیت پائی ہو وہ تکامل کے آخری مراحل کیسے طے نہیں کرے گا؟ عالم اسلام یہاں بھی متفق ہے کہ علی ؑ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ساتھ دیا اور آخر دم تک کلمہ لا الہ الا اللہ اور عدالت ِ اسلامی کی بالا دستی کے لیے ایک لمحہ بھر کوتاہی نہیں کی۔علی ؑ وہ پہلا انسان ہے جس نے رسول اکرم ﷺ کی امامت میں سب سے پہلے نماز پڑھی۔
شیعہ و سنی مفسرین کی متفقہ رائے کے مطابق علی ؑ وہ شخصیت ہیں جس کی فضیلت پر قرآن کی تین سو آیات نازل ہوئیں۔ عقدِ اخوت میں اسی ہستی کو رسول اللہ ﷺ نے اپنا بھائی قرار دیا۔ جنگ ِ بدر‘ جنگ ِ احد‘ جنگ ِ خندق اور جنگ ِ خیبر کی جیت کا سہرا صرف علی ؑ کے سر سجتا ہے۔ جس کی شان اور منزلت کے لیے غدیر ِ خم جیسے میدان اللہ تعالیٰ کے حکم سے سجائے جائیں اور اس کے مولا ہونے کا اعلان کیا جائے اسے علی ؑ کہتے ہیں۔ آیہ اکمال ِ دین جس کے اور مخلوق کے درمیان خط کھینچے اس ہستی کو علی ؑ کہتے ہیں۔باب العلم ہونے کے ناطے ہر قسم کے علم کا بانی و مبلغ وشارح کا نام علی ؑ ابن ابی طالب علیہ السلام ہے۔ جو ایمان اور کفر کے مابین حد ِ فاصل ہو اسے علی ؑ کہتے ہیں۔
علی ؑ ابن ابی طالب کے فضائل و کمالات اور شان و مراتب کا احاطہ انسانی بساط سے باہر ہے۔ کوئی ایسے انسان کا کیا احاطہ کرے گا جس کو صرف اللہ اور اس کے بعد اللہ کا رسول ہی جانتے اور پہچانتے ہوں۔ ہمیں جہاں علی ؑ کے دروازے پر خلوص و محبت کے ساتھ ایستادہ رہنا چاہیے وہاں علی ؑ کی سیرت کو اپنے لئے مشعل ِ راہ اور اس کے فرامین و اقوال و اعمال کو اپنی زندگیوں کے لیے نمونہ عمل بنانا چاہیے۔ فقط پہلا امام یا چوتھا خلیفہ مان لینے سے ہماری ذمہ داریاں پوری نہیں ہوں گی بلکہ ہمارے اقوال و افعال اس بات کی خود گواہی دیں کہ ہم علی ؑ والے ہیں۔