۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 388496
22 فروری 2023 - 22:08
زینب عقیلۃ بنی ہاشم

حوزہ/ اگر عقل کسی شخص کے لیے فصل مقوّم ہو، تو اس سے کمالات جنم لیتے ہیں ؛ عقل اس کے لیے مقہور ہے نہ کہ اس پر مسلط ہے یعنی عقل انکے تسلط میں نہ کہ وہ عقل کے تسلط میں ۔ بعض لوگوں کی کمال، حفاظت کرتا ہے لیکن بعض لوگ کمال کی حفاظت کرتے ہیں، پس عقیلة بنی ھاشم بھی ان ہستیوں میں سے ہے جس نے خود عقل کو کمال تک پہنچایا اور اس کی حفاظت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عقیلۃ بنی ھاشم کہا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | آسمان پر ملائکہ خوشیاں منا رہے ہیں، زہرا (س) کے گھر عقیلہ بنی ہاشم کی ولادت ہوئی ہے ۔ ابھی آغوش مادر میں ہی تھیں کہ صدیقہ کبری نے اپنی بیٹی کو علی علیہ السلام کے سپرد کیا اور فرمایا یا علی(س) اس نومولود کے لیے کوئی نام انتخاب کریں۔ ثانی زہرا(س) کا مقام عظمت اس عروج پر ہے کہ مولائے کائنات فرماتے ہیں میں اس نومولود کا نام رکھنے میں رسول خدا سے ہرگز سبقت نہیں لوں گا۔

اس دوران رسول خدا کسی سفر پرتشریف فرما تھے ۔مولائے متقیان اور زہراے مرضیہ تین دن تک رسول خدا کا انتظار فرماتے ہیں تا کہ جب رسول خدا سفر سے پہنچیں، تو اس مولود کا نام رکھا جائے۔

ہمیشہ کی طرح رسول خدا جیسے ہی سفر سے واپس پہنچے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی کے گھر تشریف لے گئے۔ مولائے متقیان رسول خدا کی بارگاہ میں شرفیاب ہوئے اور بیٹی کو رسول خدا کی آغوش میں دیا اور درخواست کی یا رسول اللہ اس نومولود کے لیے کوئی نام تجویز کیجیے۔ علی کی زیب و زین، رسالت کی آغوش میں ہے، رسول خدا بھی اس بچی کی عظمت کو جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فرمانے لگے یا علی میں اپنی اس نواسی کا نام رکھنے میں خدا سے سبقت نہیں لوں گا اور یوں صبر فرمانے لگے۔ ابھی اہلبیت منتظر ہی تھے کہ اسی لمحے جبرئیل امین نازل ہوئے اور پرورگار کی جانب سے درود سلام کے بعد یہ پیغام سنایا کہ اس نومولود کا نام "زینب" رکھا جائے۔

جی ہاں زینب یعنی باپ کی زینت بالیقین ثانی زہرا باپ کی زیب و زین ہے لیکن یہاں لغت شناس مورخین نے "زینب" کے لیے ایک اور معنی و مفہوم کو بھی بیان کیا ہے جس سے ثانی زہرا کی عظمت کا ایک اور رخ عیاں ہوتا اور وہ یہ کہ زینب یعنی وہ خوشبودار درخت جس کی مہک سے فضا معطر ہوجائے۔ گویا پرورگار جبرئیل امین کے واسطے نام زینب کے پیغام میں شجرہ طیبہ کی ایک اور معطر مصداق کو معین کرنا چاہ رہا ہے کہ کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ ۔ جی ہاں زینب شجرہ طیبہ کی وہ معطر مصداق ہے جو آغاز ولادت سے آج تک عالم کے لیے تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا کی رو سے ولایت اور اطاعت کے ثمر کو عالمین کے لیے پہنچا رہی ہیں۔

شجر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے اس کی رشد کے لیے اسے نور کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور زینب شجرہ طیبہ کا وہ مصداق ہے ہے جس نےنور محمدی سے لے کر نورحسینی تک تمام انوار عصمت سے خود کو منور بنایا ہے۔ اور یہ نور جب جلوہ گر ہوتا ہے تو اسیری کے حال میں بھی امیری کا بیان "ما رایت الا جمیلا" زبان سے جاری ہوتا ہے اور جب کبھی اسارت میں شجاعت کا مظاہرہ ہو تو "یابن الطلقاء" کے خطاب کے ذریعے علی کی بیٹی تخت پر بیٹھے ظالم کی حیثیت کو خاک میں ملاتے ہوئے آل ابوسفیان پر اپنے نانا کے عظیم احسانات کی تاریخ کو یاد دلاتی ہے۔

یقینا عقیلة بنی ھاشم کی عظمت کو بیان کرنا عام انسان کے عقل اور ادراک سے بالاتر ہے یہی وجہ ہے کہ مفسر قرآن آیت اللہ جوادی آملی لفظ "عقیلة بنی ھاشم" کی تفسیر یوں بیان فرماتے ہیں۔

بعض لوگ عاقل ہیں بعض عقیل اور بعض عقیلة اور لفظ عقیلة میں جو تاء ہے وہ تاء تائنیث نہیں بلکہ تاء مبالغہ ہے۔ پس تین مراحل ہیں عقل کے لیے پہلا مرحلہ عاقل بننا پھر عقیل بننا اور پھر عقل کا اعلی ترین درجہ يعنی عقیلة بننا ہے ۔ بعض لوگ عاقل نہیں ہیں اور عقل کے حصول کی تگ و دو میں رہتے ہیں ؛ بعض عاقل ہیں اور عقل ان کے لیے ایک "حال" کی صورت میں ہے یعنی یہ ان کا دیرپا وصف نہیں ہے بلکہ کبھی ہے اور کبھی نہیں ہے ؛ بعض عاقل ہیں اور عقل ان کے لیے بمنزلہ ملکہ ہے جن کے لیے عقل ملکہ بن جائے وہ عقیل کہلاتے ہیں اور عقیل صفت مشبہہ ہے ہعنی وہ صفت جو ملکہ بن جائے؛ اور بعض ایسے عاقل ہیں کہ عقل ان کی فصلِ مقوّم ہے۔

یعنی خود عقل ان کی وجہ سے محفوظ اور باقی ہے۔ جن ہستیوں کے لیے عقل فصلِ مقوّم کی منزلت پر ہے ، وہ حقیقی معنوں میں عقیلة ہیں ۔ حسین بن علی سلام اللہ علیھما بهی عقیلة بنی ہاشم ہیں اور زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا بھی عقیلہ بنی ھاشم ہیں ؛ یہ تاء مبالغے کی ہے نہ کہ تانیث کی ۔ جب کہا جاتا ہے کہ انسان خلیفۃ اللہ ہے یہ اسی طرح ہے ۔ انسان خلیفۃ اللہ ہیں نہ کہ خلیف اللہ ، کیوں ؟ اس لیے کہ یہ تاء تانیث کی تاء نہیں بلکہ مبالغے کی تاء ہے ۔ جیسا کہ ہم کہتے ہیں : فلاں شخص علاّمۃ ہے ۔ اس بنا پر وجود مبارک حسین بن علی سلام اللہ علیہ بھی عقیلة بنی ہاشم ہیں اور وجود مبارک زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا بھی عقیلة بنی ہاشم ہیں ؛ عقل ان کے لیے بمنزلہ فصل مقوّم ہے ۔

اگر عقل کسی شخص کے لیے فصل مقوّم ہو ، تو اس سے کمالات جنم لیتے ہیں ؛ عقل اس کے لیے مقہور ہے نہ کہ اس پر مسلط ہے یعنی عقل انکے تسلط میں نہ کہ وہ عقل کے تسلط میں ۔ بعض لوگوں کی کمال، حفاظت کرتا ہے لیکن بعض لوگ کمال کی حفاظت کرتے ہیں، پس عقیلة بنی ھاشم بھی ان ہستیوں میں سے ہے جس نے خود عقل کو کمال تک پہنچایا اور اس کی حفاظت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عقیلۃ بنی ھاشم کہا جاتا ہے۔خداوند متعال ہم سب کو عقيلة بنی ہاشم کی معرفت حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .